ہرن کی قربانی جائز ہے یا نہیں ؟
واضح رہے کہ قربانی کے جانور شرعی طور پر متعین ہیں، جن میں اونٹ ،گائے، دنبہ ، بھیڑ ، بکرا، مینڈھا (مذکر ومؤنث )شامل ہیں، ان کے علاوہ کسی اور جانور کی قربانی درست نہیں ہے، اور ضروری نہیں ہے کہ جس جانور کا کھانا حلال ہو اس کی قربانی بھی جائز ہو، لہذا صورتِ مسئولہ میں ہرن کی قربانی باوجود حلال جانور ہونے کے جائز نہیں ہے۔
فتاوی رحیمیہ میں ہے:
"ہرن کی قربانی:
(سوال ۸۳)ایک شخص نے قربانی کی نیت سے ایک ہرنی خریدی ہے اور وہ ہرنی اس سے بہت مانوس ہے وہ اس کی قربانی کرنا چاہتا ہے تو قربانی کرسکتا ہے یا نہیں ؟ وہ شخص کہتا ہے کہ جب ہرن کا گوشت کھانا حلال ہے تو قربانی بھی صحیح ہونا چاہئے ، آپ وضاحت فرمائیں ، بینوا توجروا۔
(الجواب)ہرنی وحشی جانوروں میں سے ہے،اور وحشی جانور کی قربانی جائز نہیں ، فتاوی ٰ عالمگیری میں ہے:
ولایجوز في الأضاحي شيء من الوحش".
وحشی جانوروں میں سے کسی جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری ص 199،ج6، کتاب الا ضحیہ )
یہ ضروری نہیں ہے کہ جس جانور کا کھانا حلال ہو اس کی قربانی بھی جائز ہو، دیکھیے ، ایک برس سے کم عمر کا بکرا، دوبرس سے چھوٹا بچھڑا، پانچ برس سے کم کا اونٹ کھانا حلال ہے، لیکن ان جانوروں کی قربانی جائز نہیں، قربانی جائز ہونے کے لیے شرعی دلیل ضروری ہے ، صرف عقلی دلیل کافی نہیں ۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں ہرنی چاہے مانوس ہوگئی ہو تب بھی اس کی قربانی جائز نہیں، فتاویٰ عالمگیری میں ہے :
"وإن ضحی بظبیة وحشیة أنست وببقرة وحشیة أنست لم تجز".
ترجمہ:۔ اگر کسی شخص نے جنگلی (وحشی ) ہرن کی یا جنگلی گائے کی جو مانوس ہوگئی ہے اس کی قربانی کی تو یہ جائز نہیں. (فتاویٰ عالمگیری ص199، ج6،باب مایجوز فیہ الشرکۃ ، کتاب الا ضحیہ) فقط وﷲ اعلم بالصواب۔
(فتاوی رحیمیہ، کتاب الاضحیہ، ج10،ص57،ط:دار الاشاعت) "
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144612100546
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن