بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہندوستان میں مظلوم مسلمان کا نماز قضا کرنے کا حکم


سوال

میں ایک مدرسہ کا طالب علم ہوں اور اپنے گاوں سے بہت دور رہتا ہوں ٹرین سے تقریبا دیڑھ دن کا سفر ہوتا ہے جسکے درمیان تقریبا ۸آٹھ نمازیں آتی ہیں اور ہندوستان کی موجودہ صورت حال سے آپ بھی واقف ہیں جہاں کہیں موقع مل رہا ہے غیر مسلموں کی طرف سے مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے میں کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کیا جاتا ہے اور بہت سی تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس صورت میں نماز کا کیا حکم ہوگا۔ کیا اس صورت میں بھی نماز پڑھنا ضروری ہوگا یا بعد میں قضاء کر سکتے ہیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگر وقتی نماز پڑھنے کا اتنا موقع مل جائے کہ بغیر جانی نقصان کے اسے پڑھ سکتا ہو تو نماز فوت کرنا گناہ ہے۔ اسی طرح اگر تمام شرائط کے ساتھ نماز پڑھنے میں دشمن ؍ ظالم کے ظلم کا خطرہ ہو لیکن سواری میں ہی بیٹھ کر یا قبلہ رخ ہوئے بغیر ہی پڑھنے کا موقع مل جائے اس طور پر کے قبلہ رخ ہوکر پڑھے یا کھڑے ہوکر پڑھے تو ظالم کے متوجہ ہونے کا قوی اندیشہ ہو تو اسی حالت میں نماز پڑھ لے، اسے فوت  نہ کرے۔

البتہ اگر اتنا موقع بھی نہ ملے تو نماز فوت ہونے پر گناہ گار نہیں ہوگا، بعد میں قضا نماز پڑھ لے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله ومن العذر) أي لجواز تأخير الوقتية عن وقتها، وأما قضاء فوائت فيجوز تأخيره للسعي على العيال كما سيذكره المصنف.

(قوله العدو) كما إذا خاف المسافر من اللصوص أو قطاع الطريق جاز له أن يؤخر الوقتية لأنه بعذر بحر عن الولوالجية.

قلت: هذا حيث لم يمكنه فعلها أصلا، أما لو كان راكبا فيصلي على الدابة ولو هاربا، وكذا لو كان يمكنه صلاتها قاعدا أو إلى غير القبلة وكان بحيث لو قام أو استقبل يراه العدو يصلي بما قدر كما صرحوا به."

(كتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، 2/ 62، ط : سعيد)

و فیہ :

"(قوله وكذا على من سقط عنه الأركان) أي تكون قبلته جهة قدرته أيضا: فقال في البحر: ويشمل أي العذر ما إذا كان على لوح في السفينة يخالف الغرق إذا انحرف إليها، وما إذا كان في طين وردغة لا يجد على الأرض مكانا يابسا أو كانت الدابة جموحا لو نزل لا يمكنه الركوب إلا بمعين أو كان شيخا كبيرا لا يمكنه أن يركب إلا بمعين ولا يجده فكما تجوز له الصلاة على الدابة ولو كانت فرضا وتسقط عنه الأركان كذلك يسقط عنه التوجه إلى القبلة إذا لم يمكنه ولا إعادة عليه إذا قدر اهـ فيشترط في جميع ذلك عدم إمكان الاستقبال، ويشترط في الصلاة على الدابة إيقافها إن قدر، وإلا بأن خاف الضرر كأن تذهب القافلة وينقطع فلا يلزمه إيقافها."

(كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، ج1 ص432، سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100248

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں