بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہندوستان میں لائف انشورنس کروانا


سوال

کیا فرما تے ہیں علمائے کرام درج ذیل کے بارے میں کہ موجود حالات میں ہم ہندوستانی مسلمانوں کو لائف انشورنس وغیرہ کرانا درست ہے؟

جواب

آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ مبارکہ میں سود کے بارے میں وارد ہونے والی سخت اور مطلق وعیدوں کی روشنی میں راجح اور مفتیٰ بہ قول کے مطابق سودی رقم کا کسی بھی قسم کا لین دین کسی بھی جگہ جائز نہیں ہے، نہ دار الاسلام میں اور نہ ہی دار الحرب میں، اگر کسی کے پاس غلطی سے کہیں سے سودی رقم آجائے تو اس کا حکم  یہ ہے   کہ اس رقم کے اصل مالک کو وہ رقم واپس کردی جائے، لیکن اگر اصل مالک تک پہنچانا ممکن نہ ہو تو پھر اس رقم کو غرباء و مساکین پر بغیر ثواب کی نیت سے صدقہ کر دیا جائے، اور انشورنس کی تمام اقسام چوں کہ سود اور قمار(جوے) کا مجموعہ ہے؛ اس لیے  انشورنس اسکیم سے کسی بھی قسم کا فائدہ اٹھانا  ناجائز ہے۔

لہذا ہندوستان میں بھی لائف انشورنس کروا نا جائز نہیں ہے۔

’’امداد المفتیین‘‘ میں ہے:

’’سوال۔۔  کیا ہندوستان میں آج کل سرکاری بینک اور ڈاک خانہ اور غیر مسلموں سے سود لینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: دار الحرب میں غیر مسلموں سے سود لینے میں اختلاف ہے، امام اعظم اور امام محمد رحمہما اللہ  جائز فرماتے ہیں اور جمہور علماء اور امام مالک اور امام شافعی اور امام احمد اور حنفیہ میں سے امام ابو یوسف رحمہم اللہ حرام فرماتے ہیں، روایات اور آیاتِ قرآنِ کریم میں بظاہر مطلقاً سود کی حرمت اور سخت وعیدیں مذکور ہیں؛ اس لیے احتیاط یہی ہے کہ ناجائز قرار دیا جائے۔

سود لینا کسی سے جائز نہیں مسلمان ہو یا ہندو۔ احتیاطی فتویٰ یہی ہے‘‘۔ (کتاب الربوٰ و القمار، ص :۷۰۶ ،درا الاشاعت )

کذا فی امداد الفتاویٰ، کتاب الربوٰ ، سوال: ۲۰۳ ، ج: ۳ ؍ ۱۵۳  ط:مکتبہ دار العلوم کراچیز

کذا فی ’’تحذیر الاخوان عن الربوٰ فی الہندوستان، ص: ۵۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201700

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں