بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہندوستان میں شادی کی ایک مخصوص رسم کا حکم


سوال

 جناب میرا سوال یہ ہے کہ دہلی سے تعلق رکھنے والے ایک گھرانے میں ، میں نے شادی میں شرکت کی،جب دولہا بارات کی تقریب کے بعد گھر پہنچا تو خود گاڑی سے اترا، اور پھر بکرے پر چھری پھیری جو کہ صدقہ کا بکرا تھا اور پھر بیگم کو گاڑی میں سے ہی گود میں لے کر وہ بکرے پر سے پھلانگتا ہوا گیا ،اور پھر بیگم کو کندھے سے اتارا اور وہ بکرا مدرسے بھیج دیا گیا، اور ایک سال بعد بیگم کا انتقال ہوگیا تو اس بندے  نے اپنی سالی سے نکاح کیا اور اس دفعہ دو بکرے اسی طرح رسم کے تحت صدقہ دئیے، پوچھنے پر بتایا کہ یہ خاندانی رسم ہے، دہلی سے چلی آرہی ہے۔

1۔کیا یہ رسومات جائز ہیں؟اور اخلاقی طور پر کیا حیثیت ہے،اسلامی طور پر کیا یہ بدعت اور شرک نہیں ؟

2۔چھوٹے بڑے بھانجے بھانجیاں موجود ہوں یہاں تک کہ محلہ کے چند لوگ تو کیا یہ بد نگاہی کا باعث نہیں بنے گا؟

3۔کیا اس طریقے سے صدقہ دینا جائز ہے؟ رہنمائ فر مائیے۔

جواب

1۔مذکورہ طریقے پر بکرا ذبح کرنا لایعنی رسم ہے ،اور شریعت کو اصولوں کے خلاف ہے ،اس لیے اس سے اجتناب ضروری ہے ۔

2۔ اسی طرح اس رسم   مرد وزن کا مخلوط اجتماع بھی ہوتا ہے ،اور بد نظری اور بدنگاہی بھی ہے ،تو  شرعي طور پر  یہ  رسم ناجائز ہے،اس لیے مذکورہ طریقے سے اجتناب ضروری ہے ۔

3۔ صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ طریقے پر  صدقہ کرتے وقت غیراللہ کا تقرب  مقصود نہیں لیکن محض ایک رسم پوری کرنے کے لیے مذکورہ فعل کیا جائے ،تو ایسا کرنا شرک تو نہیں ہو گا ،البتہ اس طریقہ پر صدقہ کرنا شریعت سے چونکہ ثابت نہیں بلکہ خاندانی رسم و رواج کی تکمیل ہے،  اسلئے یہ بدعت اور قابل ترک ہے ۔

مولانا اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں :

"بعض جگہ دولھا دلھن کو گود میں لے کر ڈولہ سے اتارا جاتا ہے ،کس قدر بے غیرتی کی بات ہے۔

(اصلاح الرسوم ،ص:99 ،ط:دینی بک )

ویضاً:

"شادی بیاہ کے موقع پر دلہا دلہن کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے ان کے سر سے لے کر پاؤں تک مرغی گھما  کر  صدقہ کرنا یہ محض ایک لایعنی رسم ہےاور شریعت کے اصولوں کے خلاف ہےلہذا اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔"

(اصلاح الرسوم ص:۷۸ )

سنن أبي داود  میں ہے :

"عن أبي قلابة، عن أبي المليح، قال: قال نبيشة: نادى رجل رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم إنا كنا نعتر عتيرة في الجاهلية في رجب فما تأمرنا؟ قال: اذبحوا لله في أي شهر كان، وبروا اللہ عز وجل، وأطعموا".

( کتاب الصحایا، باب في العتیرۃ،ص:391،ط:المطبعة الانصارية)

"ترجمہ:  ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کو آواز لگائی  کہ ہم جاہلیت میں رجب میں قربانی کرتے تھے، اب آپ کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: کسی بھی مہینے میں اللہ کے نام پر جانور ذبح کرو، اللہ تعالی کی اطاعت کرو اور لوگوں کو کھلاؤ۔"

فتاویٰ شامی میں ہے :

"واعلم أن النذر الذي يقع للاموات من أكثر العوام وما يؤخذ من الدراهم والشمعوالزيت ونحوها إلى ضرائح الاولياء الكرام تقربا إليهم فهو بالاجماع باطل وحرام ما لم يقصدوا صرفها لفقراء الانام، وقد ابتلى الناس بذلك، ولا سيما في هذه الاعصار، وقد بسطه العلامة قاسم في شر درر البحار، ولقد قال الامام محمد: لو كانت العوام عبيدي لاعتقتهم وأسقطت ولائي، وذلك لانهم لا يهتدون، فالكل بهم يتعيرون۔"

(کتاب الصوم ،ج:2 ،ص:439 ،ط:سعید)

فتاوی عزیزی میں ہے:

"ذبح کردن جانور بنام غیر خدا خواہ پیغمبر باشد خواہ ولی خواہ شھید خواہ غیر انسان، حرام است ،و اگر بہ قصد تقرب بنام  اینھا ذبح کردہ باشد ، ذبیحہ آن جانور ھم  حرام و مردار میشود ،و ذبح کنندہ مرتد میشود."

(فتاوی عزیزی، ج:1، ص:50، ط:کتب خانہ رحیمیہ)

جامع البیان میں ہے:

"قال العلماء :لو أن مسلمًا ذبح ذبیحةً، وقصد بذبحها التقرب إلی غیر الله صار مرتدًّا، فذبيحته ذبيحة مرتد".

(غرائب القرآن علی هامش جامع البیان، ج:2، ص:120، ط: دارالمعرفة بیروت)

البحرالرائق میں ہے:

"و أما النذر الذي ینذره أکثر العوامّ علی ما هو مشاهد للإنسان غائب أو مریض أو له حاجة ضروریة ... فهذا النذر باطل بالإجماع ... مالم یقصد به الناذر التقرب إلی الله و صرفه للفقراء ويقطع النذر عن نذر الشیخ".

(البحرالرائق، ج:2، ص:520، ط:مکتبة رشیدیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501102040

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں