بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہندو یا عیسائی کو گھر کرائے پر دینے اور ان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھانے کا حکم


سوال

ہندو یا عیسائی کو گھر میں کرائے پر رکھنا کیسا ہے؟ اور اصل بات جو زیادہ حل طلب ہے کہ ان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھانا اور چائے وغیرہ پینا اور ان کے برتنوں میں کھانا شریعت کی رو سے کیسا ہے؟

جواب

غیر مسلم (ہندو، عیسائی، وغیرہ) کو گھر کرائے پر دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر وہ اس گھر کے اندر اپنے مذہب کے مطابق انفرادی عبادت کرے یا شراب وغیرہ پیے تو اس کا گناہ مالک مکان پر نہیں ہوگا۔ البتہ اگر غیر مسلم کرائے دار اس گھر میں کھلم کھلا کوئی ایسا کام کرے جس کے اظہار پر اسلام میں پابندی ہو جیسے  کھلے  عام شراب فروخت کرنا یا اپنے ہم مذہب لوگوں کو جمع کرکے عبادت کرنا وغیرہ، تو اس صورت میں مسلمان مالک مکان کے لیے اس غیر مسلم کرائے دار کو ان باتوں سے روکنے کا حق ہوگا۔

اگر غیر مسلم (ہندو، عیسائی، وغیرہ) کے ہاتھ کے بنے ہوئے کھانے، چائے وغیرہ میں کوئی ناپاک چیز استعمال نہیں کی گئی ہو تو مسلمان کے لیے اسے کھانا، پینا جائز ہے۔ اسی طرح اگر غیر مسلم کے برتنوں میں کوئی ناپاک چیز نہیں لگی ہو تو مسلمان کے لیے ان کے استعمال شدہ برتنوں کا استعمال بھی درست ہے۔

 المبسوط للسرخسي (ج:16، ص:39، ط: دار المعرفة - بيروت):

’’ولا بأس بأن يؤاجر المسلم دارا من الذمي ليسكنها فإن شرب فيها الخمر، أو عبد فيها الصليب، أو أدخل فيها الخنازير لم يلحق المسلم إثم في شيء من ذلك؛ لأنه لم يؤاجرها لذلك والمعصية في فعل المستأجر وفعله دون قصد رب الدار فلا إثم على رب الدار في ذلك.‘‘

الفتاوى الهندية (ج:4، ص:450، ط: دار الفكر):

’’وإذا استأجر الذمي من المسلم دارا يسكنها فلا بأس بذلك، وإن شرب فيها الخمر أو عبد فيها الصليب أو أدخل فيها الخنازير ولم يلحق المسلم في ذلك بأس لأن المسلم لا يؤاجرها لذلك إنما آجرها للسكنى. كذا في المحيط.

ذمي استأجر دارا من مسلم فاتخذها مصلى لنفسه لم يمنع لأنه ليس في اتخاذه مصلى لنفسه إحداث بيعة ولا إظهار شيء من شعائر دينهم في أمصار المسلمين، وإن اتخذها مصلى للجماعة وضرب فيها الناقوس فلصاحبها منعه وكذلك لو أراد بيع الخمر فيها لأن هذه أشياء يمنع عن إظهارها في بلاد المسلمين ولو كان بالسواد لايمنع، وقال محمد بن سلمة البلخي: ما ذكره محمد - رحمه الله تعالى - في سواد العراق فإن عامة أهلها في ذلك الزمان أهل الذمة، وأما في سواد خراسان فإنهم يمنعون عن ذلك لأن الغالب فيه المسلمون وقال غيره من مشايخنا: لايمنعون من ذلك في سواد خراسان. كذا في محيط السرخسي.‘‘

نورالإیضاح مع شرحه مراقي الفلاح (ص:18، ط: مصطفیٰ البابي الحلبي وأولاده بمصر):

’’الأول من الأقسام: سؤر طاهر مطهر بالاتفاق من غیر کراهة في استعماله، وهوما شرب منه آدمي لیس بفمه نجاسة ... ولا فرق بین الصغیر والکبیر والمسلم والکافر والحائض والجنب ... وإذا تنجس فمه فشرب الماء من فوره تنجس.‘‘

تفسیر ابن کثیر (ج:4، ص:131، ط: دار طيبة للنشر والتوزيع):

’’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ ... و دلت هذه الآية الكريمة على نجاسة المشرك كما دلت [على طهارة المؤمن، ولما] ورد في [الحديث] الصحيح: "المؤمن لاينجس" وأما نجاسة بدنه فالجمهور على أنه ليس بنجس البدن والذات؛ لأن الله تعالى أحل طعام أهل الكتاب، وذهب بعض الظاهرية إلى نجاسة أبدانهم.‘‘

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (ج:8، ص:232، ط: دار الكتاب الإسلامي):

’’قال محمد - رحمه الله تعالى-: يكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل ومع هذا لو أكل أو شرب فيها جاز إذا لم يعلم بنجاسة الأواني وإذا علم حرم ذلك عليه قبل الغسل، والصلاة في ثيابهم على هذا التفصيل ولا بأس بطعام اليهود والنصارى من أهل الحرب ولا فرق بين أن يكونوا من بني إسرائيل أو من نصارى العرب ولا بأس بطعام المجوس كلها إلا الذبيحة وفي التتمة يكره للمسلم دخول البيعة والكنيسة؛ لأنها مجمع الشياطين. اهـ. .‘‘

الفتاوى الهندية (ج:5، ص:347، ط: دار الفكر):

’’قال محمد - رحمه الله تعالى -: ويكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل، ومع هذا لو أكل أو شرب فيها قبل الغسل جاز، ولايكون آكلاً ولا شارباً حراماً، وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني، فأما إذا علم فإنه لايجوز أن يشرب ويأكل منها قبل الغسل، ولو شرب أو أكل كان شارباً وآكلاً حراماً.‘‘

فقط و الله اعلم


فتوی نمبر : 144202200947

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں