بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہندو مالک مکان کےطویل مدت لاپتہ ہونے کی صورت میں کرایہ کا حکم


سوال

ہمارے والد مرحوم نے پچاس سال پہلے دو دوکانیں اپنے پڑوسی سے پگڑی پر لی تھیں،ان کا مالک ہندو تھا،ہم اس کو ہر ماہ کرایہ ادا کرتے تھے ،جو پندرہ سو  افغانی روپیہ بنتا تھا،پھر افغانستان کے حالات بگڑ جانے کی وجہ سے لوگ منتشر ہونے لگے،اسی دوران وہ مالک بھی غائب ہوگیا،پھر قندھار سے یہ مالک کابل چلا گیا،ہمیں جب معلوم ہوا تو ہم کابل میں کرایہ ادا کرنے لگے ،پھر تقریبا  تیس،پینتیس سال سے وہ غائب رہا  اور ہم آج تک اس کےآنے کا انتظار کرتے رہے،لیکن کوئی رابطہ نہیں ہوا،ہم بھائیوں نےمشورہ سے  اسی سلسلے میں دار الافتاء  رجوع کیاہے  کہ ہم پینتیس سال، احتیاطاً چالیس سال کا کرایہ کیسے ادا کریں؟

2۔کرایہ ادا کرنے کے بعد وہ آجاتاہے تو پھر شرعی حکم کیا ہوگا؟

3۔اور ہم کرایہ کس مد میں ادا کرسکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جس شخص کی زندگی وموت کا کچھ علم نہ ہو   اور کچھ معلوم نہ ہو  کہ وہ شخص کہاں ہےتو اس شخص کو مفقود(لاپتہ) کہا جاتا ہے،ایسے شخص کے متعلق حکم یہ کہ قاضی اس کی تلاش کی ہر ممکن کوشش کرے،مثلا جہاں اس کے جانے کا غالب گمان ہووہاں قاصد وغیرہ بھیج کر اس کی تلاش کی جائے اور جہاں جانے کا امکان ہو وہاں خط و کتابت وغیرہ کے ذریعہ معلومات کی جائے ،نیز اخبارات و اشتہارات کے زریعہ اس کی تفتیش کی جائے،اور جب تک اس کی موت کے بارے میں حقیقتاً(یقینی ذرائع سے معلوم ہوجائے کہ اس کا انتقال ہوگیا ہے) یا حکماً(اس کے ہم عمر لوگ انتقال کر جائیں یا قاضی اس کی موت کا حکم لگادے)کوئی حکم نہ لگایا جائے تو اس کے مال وغیرہ  کی حفاظت کے لیے کسی شخص کو مقرر کیا جائے ، اور اس کی موت کے حقیقتاً یا حکما  ً  حکم لگ جانے کے بعد اس کا مال اس وقت موجود اس کے ورثاء میں تقسیم کردیا جاتاہے،اور اگر اس کے کسی وارث کے بارے میں بھی کچھ علم نہ ہو تو بیت المال میں حوادثات کے لیے محفوظ کرلیا جاتا ہے اور اگر بالفرض وہ  واپس آجائے تو اس کو اس کا حق دے دیا جاتاہے۔

نیز  مروجہ پگڑی کا معاملہ شرعاً جائز نہیں ہے ،کیوں کہ یہ حق مجرد کی بیع ہے اور حق مجرد کی بیع شرعاً درست نہیں ہے  ،  یہ معاملہ کرنے کے بعد بھی جگہ  ، پگڑی پر جگہ دینے والے(اصل مالک)  کی ملکیت میں باقی رہتی ہے ،اور پگڑی کا معاملہ ختم کرنے کی صورت میں پگڑی پر لینے والا صرف اپنی اصل رقم کا حق دار ہوتا ہے ،تاہم اگر   پگڑی پر لینے والے شخص نے مکان میں کوئی اضافی کام کرایا ہو تو  اضافی رقم لی  جاسکتی ہے۔

(1-2-3)مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں جب تک مذکورہ ہندو شخص کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوتا تو  پینتیس سال،احتیاطاً چالیس سال  کا کرایہ پندرہ سو کے حساب سے یا اگر کوئی معاہدہ ہوکہ اتنے سال کے بعد کے کرایہ میں اضافہ کیا جائے گا تو اس کے حساب سے کرایہ کوسائل اور اس کے بھائی یا قاضی نے اگر کوئی شخص مقرر کیا ہو تو اس کے پاس  محفوظ رکھا جائے،اگر وہ آجائے تو ٹھیک، ورنہ اس کی موت کا حقیقتاً یا حکماً حکم لگنے کے بعد اگر اس کےورثاء موجود ہوں تو وہ اس کے حق دار ہوں گے ،ورنہ اس کا مال بیت المال میں جمع کر دیا جائے گا،نیز جب تک بیت المال کا نظام منظم نہیں ہوتاتو اس وقت تک مال اپنے پاس یا امین کے پاس محفوط رکھا جائے،تاہم پگڑی کی مد میں جتنی رقم والد صاحب نے  جمع کرائی تھی،والد صاحب کے ورثاء اس کے حق دار ہوں گے،بالفرض اگر مذکورہ شخص یا اس کا کوئی وارث آجائے تو حکومت ِوقت اس کا حق اس کو دینے کی ذمہ دار ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة وعلى هذا لا يجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف...

(قوله: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك ولا يجوز الصلح عنها. أقول: وكذا لا تضمن بالإتلاف."

(کتاب البیوع،4/ 518/ ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(هو) لغة المعدوم. وشرعا (غائب لم يدر أحي هو فيتوقع) قدومه (أم ميت أودع اللحد البلقع) أي القفرجمعه بلاقع، فدخل الأسير ومرتد لم يدر ألحق أو لا؟ (وهو في حق نفسه حي) .....(ولا تفسخ إجارته).....(ونصب القاضي من) أي وكيلا (يأخذ حقه) كغلاته وديونه المقر بها (ويحفظ ماله ويقوم عليه) عند الحاجة، فلو له وكيل فله حفظ ماله لا تعمير داره إلا بإذن الحاكم لأنه لعله مات، ولا يكون وصيا تجنيس (لكنه) أي هذا الوكيل المنصوب (ليس بخصم فيما يدعى على المفقود من دين الوديعة وشركة في عقارأو رقيق ونحوه)....(ولا يبيع) القاضي (ما لا يخاف فساده في نفقة ولا في غيرها، بخلاف ما يخاف فساده) فإنه يبيعه القاضي ويحفظ ثمنه قلت: لكن في معروضات المفتي أبي السعود أن القضاة وأمناء بيت المال في زمننا مأمورون بالبيع مطلقا وإن لم يخف فساده فإن ظهر حيا فله الثمن لأن القضاة غير مأمورين بفسخه، نعم إذا بيع بغبن فاحش فله فسخه اهـ فليحفظ.....(وبعده يحكم بموته في حق ماله يوم علم ذلك) أي موت أقرانه....(فتعتد) منه (عرسه للموت ويقسم ماله بين من يرثه الآن و)....

(قوله: ولا تفسخ إجارته) ؛ لأنها وإن كانت تفسخ بموت المؤجر أو المستأجر لكنه لم يثبت موته."

(كتاب المفقود،4/ 292،ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وعرف) أي نادى عليها حيث وجدها وفي الجامع (إلى أن علم أن صاحبها لا يطلبها أو أنها تفسد إن بقيت كالأطعمة) والثمار (كانت أمانة) لم تضمن بلا تعد فلو لم يشهد مع التمكن منه....(فينتفع) الرافع (بها لو فقيرا وإلا تصدق بها على فقير ولو على أصله وفرعه وعرسه، إلا إذا عرف أنها لذمي.

(قوله: توضع في بيت المال) للنوائب بحر ط"

 (كتاب القطة،4/ 278،ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"كل ‌لقطة يعلم أنها كانت لذمي لا ينبغي أن يتصدق بها ولكن تصرف إلى بيت المال لنوائب المسلمين، كذا في السراجية."

(كتاب القطة،2/ 290،ط:رشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144306100007

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں