بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہندو لڑکی سے نکاح کی صورت میں ثبوتِ نسب کا حکم


سوال

اگر مسلمان مرد کسی غیر مسلم ہندو وغیرہ عورت سے شادی کر لے تو پیدا ہونے والے بچے کو حلالی کہا جائے گایا حرامی؟

جواب

واضح رہے کہ ثبوتِ نسب کے لئے ضروری ہے کہ جس عورت سے نکاح کیا جا رہا ہے، اس سے نکاح کرنا صحیح ہو، نکاحِ باطل سے نسب ثابت نہیں ہوتا۔ لہذا کتابیہ (آسمانی مذہب کو ماننے والی) کے علاوہ کسی مشرک اور ہندو لڑکی سے نکاح جائز نہیں، یہ نکاح منعقد نہیں ہوتا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد بھی حلال اور ثابت النسب نہیں ہوگی۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے:

"وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ." ﴿البقرة: ٢٢١﴾

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"قال أصحابنا: لثبوت النسب ثلاث مراتب (الأولى) النكاح الصحيح وما هو في معناه من النكاح الفاسد: والحكم فيه أنه يثبت النسب من غير عودة."

(الفتاوى الهندية،كتاب الطلاق، الباب الخامس عشر في ثبوت النسب،536/1، رشيدية)

الدر المختار میں ہے:

"وفي مجمع الفتاوى: نكح كافر مسلمة فولدت منه لا يثبت النسب منه ولا تجب العدة لأنه نكاح باطل.....  وفي الرد:قوله: لأنه نكاح باطل) أي فالوطء فيه زنا لا يثبت به النسب، بخلاف الفاسد فإنه وطء بشبهة فيثبت به النسب ولذا تكون بالفاسد فراشا لا بالباطل."

( الدر المختار مع رد المحتار،كتاب الطلاق، ‌‌باب العدة، ‌‌فصل في ثبوت النسب، 555/3)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308100552

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں