بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہندو کواپنے ساتھ بٹھاکر کھانا کھانے کا حکم/ ہندو کا بھائی بیٹا پکارنے کا حکم


سوال

ہمارے ساتھ ایک ہندو کام کرتا ہے اور ہمارے ساتھ کھانا کھاتا ہے اور ہم اسی کسی کام کےلیے جب بولتے تو اسے بھائی اور بیٹاکہہ کر بولتےہیں،  تو پوچھنا یہ کہ یہ بولنا غلط تو نہیں ہے، رہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں ہندو غیر مسلم ہےاور ایسا غیرمسلم  جو کہ مرتد بھی نہ ہو اور اہلِ حرب میں سےبھی نہ ہو،تو اس سے معاملات کرنا اور اس کے ساتھ ظاہری خوش خلقی سے پیش آنا  اور اس کی غم خواری کرنا جائز ہے، البتہ دلی دوستی لگانا جائز نہیں، نیز کھانے کے دوران اگر مذکورہ ہندو کے ہاتھ یا منہ میں کوئی نجاست وناپاکی نہ ہو، جیسے: شراب وغیرہ تو اس کا جھوٹا کھانا کھانا یا پینے کی کوئی چیز پینا جائز ہے۔

باقی مذکورہ ہندو کو بھائی/ بیٹا کہنے کا حکم یہ ہے کہ چوں کہ وہ غیرمسلم ہے، اور غیرمسلم سے دلی مودت و محبت اور تعلقات رکھنا جائز نہیں ہے تو اس بناء پر بھائی یا بیٹا کہنا جائز نہیں ہے، لیکن اگر اس سے دلی محبت وتعلق نہیں ہے اور نہ ہی اس کو دینی  اور ایمانی بھائی سمجھا جائے، محض معاشرتی برتاؤ   کی وجہ سے اس کو بھائی کہہ دیا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔

قرآن کریم میں باری تعالی کا ارشاد ہے:

" لَايَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّٰهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقَاةً وَّيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللّٰهِ الْمَصِيرُ ."
ترجمہ:" مسلمانوں کو چاہیے کہ کفار کو (ظاہراً یا باطناً) دوست نہ بناویں  مسلمانوں (کی دوستی) سے تجاوز کرکے ، اور جو شخص ایسا (کام) کرے گا سو وہ شخص اللہ کے ساتھ (دوستی رکھنے کے) کسی شمار میں نہیں، مگر ایسی صورت میں کہ تم ان سے کسی قسم کا (قوی) اندیشہ رکھتے ہو۔ اور اللہ تعالیٰ تم کو اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور خدا ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔"

(سورۃ آلِ عمران، رقم الآیۃ:28، ترجمہ:بیان القرآن)

دليل الفالحين لطرق رياض الصالحين میں ہے:

"(وعن ابن عمر رضي الله عنهما أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: المسلم أخو المسلم) قال تعالى: {إنما المؤمنون إخوة} (الحجرات: 10) قال البيضاوي: أي من حيث إنهم منسوبون إلى أصل وهو الإيمان الموجب للحياة الأبدية اهـ. ورتب على هذه الأخوة المقتضية لمزيد الشفقة والتناصر والتعاون قوله (لا يظلمه) بأن ينقصه من ماله أو من حقه بغصب أو نحوه، ولا يسلمه إلى عدوّ متعد عليه عدواناً، بل ينصره ويدفع الظلم عنه ويدفعه عن الظلم كما سيأتي في حديث «انصر أخاك ظالماً» (ولا يسلمه) إلى عدوه ومنه نفسه التي هي أمارة بالسوء والشيطان كما قال تعالى: {إن الشيطان لكم عدوّ فاتخذوه عدوّاً} (فاطر: 6) فيحول بينه".

(باب حرمات المسلمین، ج:3، ص:18، ط:دارالمعرفۃ)

الأم للشافعي میں ہے:

"وقوله {فمن عفي له من أخيه شيء} [البقرة: 178] ؛ لأنه جعل الأخوة بين المؤمنين فقال {إنما المؤمنون إخوة} [الحجرات: 10] وقطع ذلك بين المؤمنين والكافرين. ودلت سنة رسول الله - صلى الله عليه وسلم - على مثل ظاهر الآية".

(کتاب جراح العمد، باب من لاقصاص لاختلاف الدینین، ج:6، ص:40، دارالمعرفۃ)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:

 " الأول " من الأقسام: سؤر " طاهر مطهر " بالاتفاق من غير كراهة في استعماله, " وهو: ما شرب منه آدمي " ليس بفمه نجاسة, لما روى مسلم عن عائشة رضي الله عنها قالت: "كنت أشرب وأنا حائض فأناوله النبي صلى الله عليه وسلم فيضع فاه على موضع في", ولا فرق بين الكبير والصغير والمسلم والكافر والحائض والجنب, وإذا تنجس فمه فشرب الماء من فوره تنجس, وإن كان بعد ما تردد البزاق في فمه مرات وألقاه أو ابتلعه قبل الشرب فلا يكون سؤره نجسا عند أبي حنيفة وأبي يوسف, لكنه مكروه لقول محمد بعدم طهارة النجاسة بالبزاق عنده".

(کتاب الطہارۃ، فصل فی احکام السؤر، ص:29، ط:دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100907

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں