ہمارے یہاں ایک تنظیم ہے جس میں چند علماء و حفاظ بھی شامل ہیں ، ان کا کام یہ ہے کہ وہ ہندو مذہب کی کتابوں سے کچھ منتر اور ان کی عبارت یاد کر لیتے ہیں، پھر ان کے مندروں کے پاس یا ان کے بتکدوں کے پاس جاتقریر وں کے درمیان میں پڑھتے ہیں، اور لوگوں کو اس کا مطلب سمجھاتے ہیں، اور بتاتے ہیں کہ" ہم سب انسان ایک ماں باپ (آدم و حوّا) کی اولاد ہیں ، لہذا آپس کے اختلاف کو ختم کرنا چاہیے اور ایک خدا کی بندگی کرنی چاہیے جیسا کہ یہ باتیں تمہاری کتابوں میں بھی مذکور ہیں"، اسی طرح تقریریں کرتے رہتے ہیں، اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا ان کا یہ عمل شریعت کی رو سے درست و جائز ہے ؟ اور اگر جائز نہیں ہے تو اس طرح کے کام کرنے والوں کے ایمان کا کیا حکم ہے ؟
صورتِ مسئولہ میں ہندو مذہب کی کتابوں کو پڑھنے اور اس میں اسلام کی تائید میں کچھ عبارتیں اور منتر یاد کرکے اسلام کی حقانیت اور ہندو مذہب کو باطل ٹہرانے کے لیے مذکورہ عبارتوں پیش کرنے والا اگر اسلامی تعلیمات کو صحیح طور پر جانتاہو،اپنے ایمان اور عقائد پر پختہ ہو ،اور مقصد یہ ہو کہ عقیدہ توحید اور نبی کریمﷺ کی پیشن گوئیاں جو ان کی کتابوں میں ہوں ان لوگوں کو اس چیز سے آگاہ کرنا ہو، ان کی کتب میں موجود تعارض اور مفاسد ان پر واضح کرنا مقصود ہوتو اس مقصد کے لیے ان کتب کو پڑھنا جائز اور مذکورہ بالا عمل کرنا درست ہوگا البتہ بغیر کسی غرض صحیح کے شوقیہ مطالعہ کرنے کی اجازت نہیں ،اسی طرح عام بندہ جس کو شریعتِ مطہرہ کا صحیح علم نہ ہو، اور اپنے ایمان وعقائد پر پختہ نہ ہوتو اس کو بھی اس کی اجازت نہیں ہے۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"عن جابر: (أن عمر بن الخطاب رضي الله عنهما أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم بنسخة من التوراة فقال يا رسول الله هذه نسخة من التوراة فسكت فجعل يقرأ ووجه رسول الله يتغير فقال أبو بكر ثكلتك الثواكل ما ترى ما بوجه رسول الله صلى الله عليه وسلم فنظر عمر إلى وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال أعوذ بالله من غضب الله وغضب رسوله صلى الله عليه وسلم رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " والذي نفس محمد بيده لو بدا لكم موسى فاتبعتموه وتركتموني لضللتم عن سواء السبيل ولو كان حيا وأدرك نبوتي لاتبعني)رواه الدارمی."
(باب الاعتصام بالكتاب والسنة، الفصل الثالث، ج:1، ص:51، ط:المكتب الإسلامي)
ترجمہ: "جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) حضرت عمر ابن خطابرضی اللہ عنہ سرکارِ دو عالم کے پاس تورات کا ایک نسخہ لائے اور عرض کیا ، یا رسول اللہ! یہ تورات کا نسخہ ہے، آنحضرت ﷺ خاموش رہے، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (تورات کو) پڑھنا شروع کردیا، ادھر غصہ سے آنحضرت کا چہرۂ مبارک متغیر ہونے لگا(یہ دیکھ کر) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا عمر ! گم کرنے والیاں تمہیں گم کریں، کیا تم آنحضرت ﷺ کے چہرۂ اقدس (کے تغیر ) کو نہیں دیکھتے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت ﷺ کے چہرۂ منور کی طرف نظر ڈالی اور (غصہ کے آثار دیکھ کرکہا) میں اللہ کے غضب اور اس کے رسول کے غصہ سے پناہ مانگتا ہوں، ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر ، اسلام کے دین ہونے پر، اور محمد ﷺ کے نبی ہونے پرراضی ہیں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا، قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے اگر موسیٰ تمہارے درمیان ظاہر ہوتےتو تم ان کی پیروی کرتے اور مجھے چھوڑدیتے(جس کے نتیجہ میں) تم سیدھے راستہ سےبھٹک کر گمراہ ہوجاتے اور (حالانکہ) اگر موسیٰ زندہ ہوتے اور میرا زمانۂ نبوت پاتے تو وہ (بھی) یقیناًمیری (ہی) پیروی کرتے۔"
( مظاہرِ حق جدید، ج:1، ص:222، ط:دار الاِشاعت)
تفسیر رازی میں ہے:
"واعلم أن النبي صلى الله عليه وسلم لما أورد على نصارى نجران أنواع الدلائل وانقطعوا، ثم دعاهم إلى المباهلة فخافوا وما شرعوا فيها وقبلوا الصغار بأداء الجزية، وقد كان عليه السلام حريصا على إيمانهم، فكأنه تعالى قال: يا محمد اترك ذلك المنهج من الكلام واعدل إلى منهج آخر يشهد كل عقل سليم وطبع مستقيم أنه كلام مبني على الإنصاف وترك الجدال، وقل يا أهل الكتاب تعالوا إلى كلمة سواء بيننا وبينكم أي هلموا إلى كلمة فيها إنصاف من بعضنا لبعض، ولا ميل فيه لأحد على صاحبه، وهي ألا نعبد إلا الله ولا نشرك به شيئا هذا هو المراد من الكلام."
(سورة آل عمران، آیت:64، ج:8، ص:251، ط:دار إحياء التراث العربي)
فتح الباری میں ہے:
"قوله وحدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج أي لا ضيق عليكم في الحديث عنهم لأنه كان تقدم منه صلى الله عليه وسلم الزجر عن الأخذ عنهم والنظر في كتبهم ثم حصل التوسع في ذلك وكأن النهي وقع قبل استقرار الأحكام الإسلامية والقواعد الدينية خشية الفتنة ثم لما زال المحذور وقع الإذن في ذلك لما في سماع الأخبار التي كانت في زمانهم من الاعتبار وقيل معنى قوله لا حرج لا تضيق صدوركم بما تسمعونه عنهم من الأعاجيب فإن ذلك وقع لهم كثيرا وقيل لا حرج في أن لا تحدثوا عنهم لأن قوله أولا حدثوا صيغة أمر تقتضي الوجوب فأشار إلى عدم الوجوب وأن الأمر فيه للإباحة بقوله ولا حرج أي في ترك التحديث عنهم وقيل المراد رفع الحرج عن حاكي ذلك لما في أخبارهم من الألفاظ الشنيعة نحو قولهم اذهب أنت وربك فقاتلا وقولهم اجعل لنا إلها...وقال مالك المراد جواز التحدث عنهم بما كان من أمر حسن أما ما علم كذبه فلا وقيل المعنى حدثوا عنهم بمثل ما ورد في القرآن والحديث الصحيح."
( باب ما ذكر عن بني إسرائيل، ج:6، 498، ط:دار المعرفة)
وفيه أيضاً:
"والأولى في هذه المسألة التفرقة بين من لم يتمكن ويصر من الراسخين في الإيمان فلا يجوز له النظر في شيء من ذلك بخلاف الراسخ فيجوز له ولا سيما عند الاحتياج إلى الرد على المخالف ويدل على ذلك نقل الأئمة قديما وحديثا من التوراة وإلزامهم اليهود بالتصديق بمحمد صلى الله عليه وسلم بما يستخرجونه من كتابهم ولولا اعتقادهم جواز النظر فيه لما فعلوه وتواردوا عليه وأما استدلاله للتحريم بما ورد من الغضب ودعواه أنه لو لم يكن معصية ما غضب منه فهو معترض بأنه قد يغضب من فعل المكروه ومن فعل ما هو خلاف الأولى إذا صدر ممن لا يليق منه ذلك كغضبه من تطويل معاذ صلاة الصبح بالقراءة."
(باب قول الله تعالى بل هو قرآن مجيد في لوح محفوظ، ج:13، ص:525، ط:دار المعرفة)
فتاوی شامی میں ہے:
"واختار سيدي عبد الغني ما في الخلاصة، وأطال في تقريره، ثم قال: وقد نهينا عن النظر في شيء منها سواء نقلها إلينا الكفار أو من أسلم منهم."
(كتاب الطهارة، سنن الغسل، ج:1، ص:175، ط:سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144503101138
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن