بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہندو کے ساتھ کاروبار میں شراکت كا حكم


سوال

ہندو کے ساتھ کاروبار میں شراکت جائز ہے یا نہیں؟

جواب

ہندؤوں کے ساتھ کاروباری شراکت جائزہے، لیکن چوں کہ وہ خرید وفروخت کے  شرعی اَحکام نہیں جانتے ہیں، اس لیے ممنوع خرید وفروخت  کرنے کے خطرہ کی وجہ سے  شراکت مکروہ ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ويكره للمسلم أن يشارك الذمي؛ لأنه يباشر عقودًا لاتجوز في الإسلام فيحصل كسبه من محظور فيكره، و لهذا كره توكيل المسلم الذمي، و لو شاركه شركة عنان جاز كما لو وكله."

(كتاب الشركة،  فصل وأما بيان شرائط جواز هذه الأنواع (6/ 62)،ط. دار الكتاب العربي: 1982)

البحر الرائق میں ہے:

"وأنه يكره للمسلم أن يشارك الذمي اهـ  يعني شركة عنان ."

(كتاب الشركة (5/ 183)،ط.  دار المعرفة، بيروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144203200098

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں