بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہندو سے کھانے کا تحفہ قبول کرنا اور اسے کھانا


سوال

میرا ایک ہندو دوست ہے جس نے مجھے تحفے میں کھانے کی کوئی چیز دی کیا میں اسے کھا سکتا ہوں ؟ ہندو کے مال سے خریدی گئی  چیز کھانا جائز ہے؟

جواب

مسلمان کے  لیے غیر مسلم  کا تحفہ قبول کرنا   جائز ہے، بشرطیکہ   اس میں دین کی بے توقیری نہ ہو یا آئندہ اس تحفے کی وجہ سے کسی قسم کا ملی نقصان نہ ہو ، نیز جو چیز ہدیہ میں دی گئی ہو وہ مسلمان کے لیے بذاتِ خود   جائز و حلال ہو۔ البتہ ان سے  قریبی تعلقات اور دوستی لگانا اور ان کے مذہبی تہوار پر ان کےساتھ تحفہ تحائف کا لین دین  جائز  نہیں  ہے۔

 صورتِ   مسئولہ  میں  مذکورہ  دوست  نے جو  کھانے  کی چیز کا تحفہ دیا تھا وہ  اگر کسی غیر مسلم (ہندو، عیسائی، وغیرہ)نے بنایا تھا  اور اس  کے ہاتھ کے بنے ہوئے کھانے وغیرہ میں کوئی ناپاک چیز   (یا غیر شرعی ذبیحہ)  استعمال نہیں کی گئی ہو تو آپ  کے لیے اسے کھانا، پینا جائز ہے۔ 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"فقد روى محمد - رحمه الله تعالى - في السير الكبير أخبارا متعارضة في بعضها أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قبل هدايا المشرك وفي بعضها أنه صلى الله عليه وسلم لم يقبل فلا بد من التوفيق واختلفت عبارة المشايخ رحمهم الله تعالى في وجه التوفيق فعبارة الفقيه أبي جعفر الهندواني أن ما روي أنه لم يقبلها محمول على أنه إنما لم يقبلها من شخص غلب على ظن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أنه وقع عند ذلك الشخص أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إنما يقاتلهم طمعًا في المال لا لإعلاء كلمة الله و لايجوز قبول الهدية من مثل هذا الشخص في زماننا و ما روي أنه قبلها محمول على أنه قبل من شخص غلب على ظن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أنه وقع عند ذلك الشخص أن رسول الله صلى الله عليه وسلم إنما يقاتلهم لإعزاز الدين ولإعلاء كلمة الله العليا لا لطلب المال وقبول الهدية من مثل هذا الشخص جائز في زماننا أيضا ومن المشايخ من وفق من وجه آخر فقال لم يقبل من شخص علم أنه لو قبل منه لا يقل صلابته وعزته في حقه ويلين له بسبب قبول الهدية وقبل من شخص علم أنه لايقل صلابته وعزته في حقه ولا يلين بسبب قبول الهدية كذا في المحيط لا بأس بأن يكون بين المسلم والذمي معاملة إذا كان مما لا بد منه كذا في السراجية."

(كتاب الكراهية، الباب الرابع عشر في أهل الذمة والأحكام التي تعود إليهم، ٥ / ٣٤٧ - ٣٤٨، ط: دار الفكر)

فتاوی  ہندیہ میں ہے:

"قال محمد - رحمه الله تعالى - ويكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل ومع هذا لو أكل أو شرب فيها قبل الغسل جاز ولا يكون آكلا ولا شاربا حراما وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني فأما إذا علم فأنه لا يجوز أن يشرب ويأكل منها قبل الغسل ولو شرب أو أكل كان شاربا وآكلا حراما .... وحكي عن الحاكم الإمام عبد الرحمن الكاتب أنه إن ابتلي به المسلم مرة أو مرتين فلا بأس به وأما ‌الدوام ‌عليه فيكره كذا في المحيط."

(كتاب الكراهية،الباب الرابع عشر في أهل الذمة والأحكام التي تعود إليهم،5/ 347،ط:رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101279

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں