بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہندو ملازمین کے ساتھ کھانا کھانا اور ان کو سلام کا جواب دینے کا حکم


سوال

ہم جہاں ملازمت کرتے ہیں اس ادارے میں ہندو ملازمین بھی ساتھ کام کرتے ہیں ، وہ گھر سے کھانا وغیرہ لاتے ہیں اور کھانے کی آفر کرتے ہیں ،کیا ان کے ساتھ کھانا کھا سکتے ہیں؟ نیز اگر وہ سلام کرتے ہیں تو کیا وعلیکم السلام کہہ سکتے ہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ہندوں ملازمین کے ساتھ کھانا کھانے کی نوبت آجائے توان کےساتھ کھانے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ ان کا کھاناحلال ہواوربرتن پاک ہوں ،البتہ اسےمستقل عادت بنانا درست نہیں ہے، اس طرح ان کی مذہبی تقریبات میں شریک ہوکر ان کے ساتھ کھانا کھانااوردوستی رکھنا جائز نہیں اور اگر ان  کے ساتھ کھانےپینے کی صورت   میں عقائد بگڑنے کا اندیشہ ہو  تو  ان کے ساتھ کھانا پینابھی جائز نہیں ، نیز اگر غیر مسلم سلام میں پہل کرے تو جواب میں صرف '' وعلیکم'' کہہ دینا چاہیے،البتہ غیرمسلم کو  خود سلام میں پہل  نہیں کرنی چاہیے۔

فتاوی  ہندیہ میں ہے:

"قال محمد - رحمه الله تعالى - ويكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل ومع هذا لو أكل أو شرب فيها قبل الغسل جاز ولا يكون آكلا ولا شاربا حراما وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني فأما إذا علم فأنه لا يجوز أن يشرب ويأكل منها قبل الغسل ولو شرب أو أكل كان شاربا وآكلا حراما .... وحكي عن الحاكم الإمام عبد الرحمن الكاتب أنه إن ابتلي به المسلم مرة أو مرتين فلا بأس به وأما ‌الدوام ‌عليه فيكره كذا في المحيط."

(كتاب الكراهية،الباب الرابع عشر في أهل الذمة والأحكام التي تعود إليهم،5/ 347،ط:رشيدية)

بخاری شریف میں ہے :

''عن أنس بن مالك رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " إذا سلم عليكم أهل الكتاب فقولوا: وعليكم."

( کتاب الاستئذان، باب: كيف يرد على أهل الذمة السلام،8/ 57 ط: دار طوق النجاة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101859

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں