بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ہندو کے ساتھ کھانا کھانا


سوال

میرابھانجا سعودی عرب میں رہتا ہے، کھانا کھارہا تھا،اس کے ساتھ کام کرنےوالا  ایک ہندو آیا، اس نے کہا آؤ کھانا کھاؤ، جب کہ اس  کے ساتھ دوسرے کام کرنےوالوں نے میرےبھانجے   کے ساتھ کھانا پینا چھوڑ دیا ہے، وہ کہتا ہے کہ  مسئلہ پوچھ کر بتائیں؟

جواب

واضح رہے کہ وہ غیر مسلم جو کہ مرتد نہ ہو اور اہلِ حرب میں سے نہ ہو ، اس سے معاملات کرنا اور اس کے ساتھ ظاہری خوش خلقی سے پیش آنا  اور اس کی غم خواری کرنا جائز ہے،لیکن دلی دوستی لگانا ہرگزجائز نہیں۔نیز غیر مسلموں کے ساتھ کھانا کھانے کی نوبت آجائے توان کےساتھ کھانے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ کھاناحلال ہواوربرتن پاک ہوں ،البتہ اسے عادت بنانا درست نہیں ہے۔

لہذاصورت مسؤلہ میں عام احوال میں ہندوکے ساتھ کھاناکھانا  جائز ہے،لیکن اسے عادت بنانا درست نہیں ہے۔ البتہ  ان کی مذہبی تقریبات میں شریک ہوکر ان کے ساتھ کھانا کھانااوردوستی رکھنا جائز نہیں ،اسی طرح  ان کے ساتھ کھانےپینے کی صورت   میں عقائد بگڑنے کا اندیشہ ہو  تو  ان کے ساتھ کھانا پینابھی جائز نہیں ۔

فتاوی  ہندیہ میں ہے:

"قال محمد - رحمه الله تعالى - ويكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل ومع هذا لو أكل أو شرب فيها قبل الغسل جاز ولا يكون آكلا ولا شاربا حراما وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني فأما إذا علم فأنه لا يجوز أن يشرب ويأكل منها قبل الغسل ولو شرب أو أكل كان شاربا وآكلا حراما .... وحكي عن الحاكم الإمام عبد الرحمن الكاتب أنه إن ابتلي به المسلم مرة أو مرتين فلا بأس به وأما ‌الدوام ‌عليه فيكره كذا في المحيط."

(كتاب الكراهية،الباب الرابع عشر في أهل الذمة والأحكام التي تعود إليهم،5/ 347،ط:رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100786

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں