بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہندو اور مسلم کا مشترک کاروبار ہو تو زکاۃ نکالنے کا حکم


سوال

 ایک کمپنی  میں  دو بندے(ایک مسلمان اور ایک ہندو) شریک ہیں، چوتھائی حصہ ہندو کا ہے، اور باقی مسلمان کا ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ مسلمان زکاۃ کس طرح ادا کرے گا؟ کیا مسلمان ہندو کی  آمدنی نکال کر زکوٰۃ ادا کرے گا یا پہلے زکوٰۃ ادا کرے گا بعد میں ہندو کو اس کا حصہ دے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مسلمان اور ہندو نے کمپنی میں شراکت داری کی ہے تو جو اثاثے کمپنی  کی مشینری اور تعمیرات کی صورت میں ہیں  اس پر زکاۃ واجب نہیں ہوگی،  البتہ جو اثاثے اس کے علاوہ تجارت میں لگے ہوئے ہیں خواہ وہ خام مال ہو یا تیار ہو دونوں صورتوں میں مسلمان کے حصے کی زکاۃ اس پر لازم ہوگی، اور ہندو کے حصے کی زکاۃ نہیں دی جائے گی۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"الخليطان في المواشي كغير الخليطين فإن كان نصيب كل واحد منهما يبلغ نصابا وجبت الزكاة، وإلا فلا سواء كانت شركتهما عنانا أو مفاوضة أو شركة ملك بالإرث أو غيره من أسباب الملك وسواء كانت في مرعى واحد أو في مراع مختلفة فإن كان نصيب أحدهما يبلغ نصابا ونصيب الآخر لا يبلغ نصابا وجبت الزكاة على الذي يبلغ نصيبه نصابا دون الآخر، وإن كان أحدهما ممن تجب عليه الزكاة دون الآخر ‌فإنها ‌تجب ‌على ‌من ‌تجب ‌عليه إذا بلغ نصيبه نصابا."

(كتاب الزكاة، مسائل شتى في الزكاة، ج:1، ص:181، ط:دار الفکر)

وفيه أيضاً:

"ومنها الإسلام حتى ‌لا ‌تجب ‌على ‌الكافر كذا في البدائع ثم الإسلام كما هو شرط الوجوب شرط لبقاء الزكاة عندنا."

(كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها، ج:1، ص:171، دار الفکر)

فتح القدیر میں ہے:

"الزكاة واجبة ‌في ‌عروض ‌التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق أو الذهب) لقوله - عليه الصلاة والسلام - فيها «يقومها فيؤدي من كل مائتي درهم خمسة دراهم»."

(‌‌كتاب الزكاة، ‌‌باب زكاة المال ‌‌، ‌‌فصل في العروض، ج: 2، ص:218، ط:دار الفكر)

وفيه ايضاً:

"(وليس ‌في ‌دور ‌السكنى وثياب البدن وأثاث المنازل ودواب الركوب وعبيد الخدمة وسلاح الاستعمال زكاة) لأنها مشغولة بالحاجة الأصلية."

(‌‌كتاب الزكاة، ج: 2، ص:162، ط:دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے۔

"وتعتبر القيمة ‌يوم ‌الوجوب."

(کتاب الزکوۃ،باب زکوۃ الغنم،ج،2،ص۔286،ط،سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100474

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں