1۔بکر کو فریج کی ضرورت تھی، لیکن اس کے پاس نقدی موجود نہ تھی، اور کوئی قرضہ دینے کے لیے تیار نہیں تھا، تو وہ عمرو کے پاس گیا کہ مجھے فریزر کی ضرورت ہے، عمرو نے بکر سے کہا کہ میں آپ کے لیے سودا کرتا ہو، لیکن آپ سے ماہانہ 3000 روپے بطورِ قسط لوں گا، بکر نے رضامندی ظاہر کی، اس کے بعد عمرو و بکر کپڑے والے کے دکان پر گئے ،جو کہ زید کا ہے، عمرو نے بکر کےلیے کپڑا ساٹھ ہزار کا نقداً خریدااور اسی مجلس میں بکر پر قسط وار95000 کا فروخت کیا،پھر بکر نے اسی وقت دکاندار زید پر نقداً 60000 کا بیچا، پھر بکر نے اسی 60000 سے فریزر خریدا، کیا ایسا معاملہ شرعاً درست ہے؟
2۔حیلہ اور تورق کی شرعی حیثیت کیا ہے؟نیز ان کی بنیاد پر مستقل کاروبار کرنا کیسا ہے؟
3۔ کسی کے لیے خریدی گئی چیز اسی پر مہنگے دام بیچنا شرعاً درست ہے؟
1۔صورتِ مسئولہ میں مذکورہ معاملہ بیع عینہ کا ہے جو کہ مکروہ تحریمی ہے، اس طرح کا معاملہ کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، حضور ﷺ نے اس قسم کے عقد کو رسوائی اور ذلت کا سبب قرار دیا ہے، لہذا اس سے اجتناب کرے۔
2۔حیلہ کے جواز کے متعلق علمائے احناف کا مذہب یہ ہے کہ ایسا حیلہ کرنا جس کے ذریعے سے آدمی اپنے آپ کو حرام کام یا چیز سے دور رکھےیا اس کے ذریعے حلال چیز تک پہنچ جائےتو ایسا کرنا نیک اور اچھا کام ہےاور اس کی اجازت ہے، لیکن اس کے برعکس ایسا حیلہ کرنا جس کے ذریعے کسی دوسرے شخص کا حق دبایا جائےیا حق سے بے حق کیا جائےیا اس میں شبہ پیدا کیا جائےیا ناجائز اور باطل کام یا مشتبہ چیز کو صحیح اور سچ کرنے کا ذریعہ بنایا جائےتو ایسا حیلہ کرنا مکروہ تحریمی ہے، لہذا مذکورہ تفصیل کر رو سےسود سے بچنے کے لیے حیلہ کرنا اور اسی حیلہ اور تورق کی بنیاد پر مستقل کاروبار کرنا شرعاًجائز نہیں ہے، بلکہ شریعت میں اس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
3۔ صورتِ مسئولہ میں اگر مشتری نے کوئی چیز ابتداءًدوسرے بندے کے لیے خریدی ہو توخریدنے والا محض وکیل ہے اور خریدی گئی چیز اسی دوسرے بندے کی ملکیت ہو گی ، اس صورت میں مشتری کے لیے جائز نہیں ہو گا کہ وہی چیز اس دوسرے بندے پر مہنگے دام فروخت کرے، البتہ اگر مشتری ابتداءً اپنے لیے چیز خرید کر قبضہ بھی کر لیتا ہے تواس کو آگے مہنگے دام فروخت کرنے کی اجازت ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: في بيع العينة) اختلف المشايخ في تفسير العينة التي ورد النهي عنها. قال بعضهم: تفسيرها أن يأتي الرجل المحتاج إلى آخر ويستقرضه عشرة دراهم ولا يرغب المقرض في الإقراض طمعا في فضل لا يناله بالقرض فيقول لا أقرضك، ولكن أبيعك هذا الثوب إن شئت باثني عشر درهما وقيمته في السوق عشرة ليبيعه في السوق بعشرة فيرضى به المستقرض فيبيعه كذلك، فيحصل لرب الثوب درهما وللمشتري قرض عشرة. وقال بعضهم: هي أن يدخلا بينهما ثالثا فيبيع المقرض ثوبه من المستقرض باثني عشر درهما ويسلمه إليه ثم يبيعه المستقرض من الثالث بعشرة ويسلمه إليه ثم يبيعه الثالث من صاحبه وهو المقرض بعشرة ويسلمه إليه، ويأخذ منه العشرة ويدفعها للمستقرض فيحصل للمستقرض عشرة ولصاحب الثوب عليه اثنا عشر درهما، كذا في المحيط، وعن أبي يوسف: العينة جائزة مأجور من عمل بها، كذا في مختار الفتاوى هندية. وقال محمد: هذا البيع في قلبي كأمثال الجبال ذميم اخترعه أكلة الربا. وقال - عليه الصلاة والسلام - إذا تبايعتم بالعينة واتبعتم أذناب البقر ذللتم وظهر عليكم عدوكم."
(باب الصرف، مطلب في بيع العينة، ج: 5، ص: 273، ط: سعيد)
النہرالفائق میں ہے:
"(ولو أمر الكفيل أن يتعين) أي: يشتري (عليه حريرًا ففعل) ما أمر به من الشراء بالعينة وهو أن يشتريه بأكثر من قيمته ليبيعه بأقل من ذلك الثمن لغير البائع ثم يشتريه البائع من ذلك الغير بالأقل الذي اشتراه به ويدفع ذلك الأقل إلى بائعه فيدفعه بائعه إلى المشتري المديون تحرزًا عن شراء ما باع بأقل مما باع قبل فقد الثمن وقيل: هو أن يطلب منه القرض فيأبى عليه فيبيعه ثوبًا يساوي عشرة بخمسة عشر نسيئة رغبة في نيل الزيادة ليبيعه بعشرة ويتحمل خمسة سمي به لما فيه من الإعراض عن الدين إلى العين وهو مكروه لما فيه من الإعراض عنمبرة الإقراض مطاوعة لمذموم البخل، كذا في (الهداية) مقتصرًا عليه."
(كتاب الكفالة، ج: 3، ص: 575، ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"مذهب علمائنا - رحمهم الله تعالى - أن كل حيلة يحتال بها الرجل لإبطال حق الغير أو لإدخال شبهة فيه أو لتمويه باطل فهي مكروهة وكل حيلة يحتال بها الرجل ليتخلص بها عن حرام أو ليتوصل بها إلى حلال فهي حسنة، والأصل في جواز هذا النوع من الحيل قول الله تعالى {وخذ بيدك ضغثا فاضرب به ولا تحنث} [ص: 44] وهذا تعليم المخرج لأيوب النبي - عليه وعلى نبينا الصلاة والسلام - عن يمينه التي حلف ليضربن امرأته مائة عود وعامة المشايخ على أن حكمها ليس بمنسوخ وهو الصحيح من المذهب كذا في الذخيرة."
(الفصل الأول: في بيان جواز الحيل وعدم جوازها، ج: 6، ص: 390، ط: دار الفكر بيروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144512100843
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن