1. ہجری اور قمری سال کو اسلامی سال کہنا کیسا ہے؟
2. لفظ آمین عربی لفظ ہے یا یہودیوں اور نصرانیوں کی زبان سے ماخوذ ہے؟
3. نیز دعا میں آمین کہنا کیسا ہے؟
1. شریعتِ مطہرہ میں اکثر احکام کا تعلق قمری سال سے ہے، نیز اس کی بنیاد بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مشورہ سے ہوئی؛ ان مناسبات کی بنیاد پر اس کو اسلامی سال کہا جاتا ہے۔
حضرت مولانا محمد ادریس میرٹھی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"احکامِ شرعیہ کا مدار حسابِ قمری پر ہے، ا س لیے ا س کی حفاظت فرض کفایہ ہے، پس اگر ساری امت دوسری اصطلاح کو اپنا معمول بنا لیوے، جس سے حسابِ قمری ضائع ہوجائے، سب گنہگار ہوںگے اور اگر وہ محفوظ رہے (تو) دوسرے حساب کا استعمال مباح ہے، لیکن خلافِ سنتِ سلف ضرور ہے اور حسابِ قمری کا برتنا بوجہ اس کے فرضِ کفایہ ہونے کے لابد افضل واحسن ہے۔‘‘ (تفسیر بیان القرآن: حضرت حکیم الامت تھانوی قدس سرہٗ)
کہنے کو تو چھوٹی سی بات ہے،مگرہے بہت بڑی، انگریزیت کے زیر اثر آج کے دیندار حلقوں میں بھی انگریزی تاریخ کا رواج ایسا عام ہے کہ اسلامی تاریخ کی سنت بہت سے حلقوں میں مٹ چکی ہے، آیئے! نئے سال کے آغاز پر اس سنت کے احیاء کا عزم کریں۔ وفقنا اللّٰہ لكل خیر و سعادۃ، و صلی اللّٰہ تعالى على صفوة البریة محمد و آله و أصحابه و أتباعه أجمعین! "
(بینات شمارہ محرم الحرام 1439ھ - اکتوبر: 2017، عنوان: سنِ ہجری! )
2. لفظ "آمین"عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنیٰ کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس کا معنیٰ ہے: "اے اللہ تو قبول کر دے "،اوردوسرا قول یہ ہے کہ اس کا معنی ہے "اسی طرح ہو" ،بہرحال اس لفظ کے معنی کے بارے میں مختلف اقوال ہیں، لیکن اکثر علماء فرماتے ہیں اس کے معنی "اے اللہ ہماری دعا قبول فرما "کے ہیں ۔
رئیس دار الافتاء حضرت مولانامفتی سید سلیمان یوسف بنوری دامت برکاتہم العالیہ ’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘ میں ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
’’آمین‘‘ اصلاً عربی لفظ ہے، اس کے مختلف معانی ہیں:
(1) "اَللهمَّ اسْتَجِبْ لَنَا" (اے اللہ ہماری دعا قبول فرما)۔
(2) "فَلْيَكُنْ كَذٰلِكَ" ( اس طرح ہونا چاہیے)
(3) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کیا ہے کہ : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا "آمین" کا معنی کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : "رَبِّ افْعَلْ" اس کا معنی ہے: ”اے میرے رب ! تو (ایسا) کر“ ۔
(4) حضرت مقاتل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : ”یہ کلمہ دعا کے لیے قوت ہے اور برکت طلب کرنے کے لیے ہے۔“
(5) امام ترمذی رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ اس کا معنی ہے: ”ہماری امیدوں کو نامراد نہ کر۔“ ([1])
شریعتِ اسلامیہ میں اس کا استعمال عام ہے اور اب مختلف دیگر زبانوں میں بھی رائج ہے، بائبل میں بھی یہ لفظ عبرانی اوریونانی میں کئی جگہ استعمال ہوا ہے۔پرانے عہدنامے میں یہ 'ایسا ہی ہے 'اور'ایسا ہی ہو ' اور'یہ سچ ہے' کے معنی میں وارد ہوا ہے۔ (سلاطین ۳۶:۱یرمیاہ۶:۲۸) قسم اورعباد ت کے طورپر بھی استعمال ہوا ہے، جس کے لیے گنتی،استثناہ،تواریخ،نحمیاہ اورزبور کے ابواب دیکھے جاسکتے ہیں۔نئے عہدنامہ میں خطوط میں یہ شخصی اورجماعتی دعاؤں کے اختتام پر استعمال ہوا ہے۔ (کرنتھیوں۱۶:۳۶؛مکاشفہ۱۴:۵)اس کے علاوہ حضرت عیسی ٰ علیہ السلام کے لقب کے طورپر ابھی اس کا استعمال ملتا ہے۔ (کرنتھیوں۲۰:۱)
تاہم بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ”آمین“اہلِ اسلام کی خصوصیات میں سے ہے، اور یہ کلمہ ہم سے پہلے صرف موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کو عطا کیا گیا تھا، علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ”خصائصِ کبریٰ“ میں ’’مسندِ حارث ‘‘ کے حوالے سے ایک حدیث روایت کی ہے کہ ” اور مجھے آمین عطاکیا گیا، اوریہ تم سے پہلے کسی اور کو عطا نہیں کیا گیا، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت ہارون علیہ السلام کو یہ عطا کیا تھا، کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا پر آمین کہتے تھے۔“ اسی طرح ’’شرح مواہب‘‘ میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً نقل ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے میری امت کو تین ایسی چیزیں عطا فرمائی ہیں جو ان سے پہلے کسی کو عطا نہیں فرمائیں، وہ یہ ہیں : اہلِ جنت کا سلام، فرشتوں کی صفیں اور آمین، مگر موسیٰ اور ہارون کو آمین کا کلمہ دیا گیا تھا۔“ ابن عربی رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ : ”یہ کلمہ ہم سے پہلے امتوں کے لیے نہیں تھا، اللہ تعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ یہ ہمیں عطا فرمایا ہے۔“
اسی بنا پر محققین کی ایک جماعت کی یہی رائے ہے کہ ”آمین“ اس امت کی خصوصیت ہے، حضرت مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ نے معارف القرآن میں لکھا ہے کہ نصاریٰ وغیرہ کی کتب میں جو "آمین" کا ذکر ہے، وہ اہلِ اسلام سے لیا گیا ہے۔ (معارف السنن 2/405۔ تفسير القرطبي (1 / 128)۔ الموسوعة الفقهية الكويتية (1 / 110)۔معارف القرآن للکاندھلوی 1/35) فقط واللہ اعلم‘‘
3. اس کو دعا میں نہ صرف یہ کہ استعمال کر سکتے ہیں، بلکہ استعمال کرنا بہتر ہے۔
سنن ابن ماجہ میں ہے:
"عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما حسدتكم اليهود على شيء، ما حسدتكم على آمين، فأكثروا من قول آمين."
(کتاب اقامة الصلاۃ والسنة فیھا ، باب الجھر بآمین، جلد : 1 ، صفحه : 279 ، طبع : دار احياء الكتب العربية)
ترجمه:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہود نے تمہارے اوپر جتنا حسد لفظ آمین میں کیا ہے اتنا کسی دوسری چیز میں نہیں کیا، لہذا آمین کثرت سے کہا کرو۔
فتح الباری میں ہے:
"عن عائشة مرفوعا ما حسدتكم اليهود على شيء ما حسدوكم على السلام والتأمين وهو يدل على أنه شرع لهذه الأمة دونهم."
(کتاب الاستئذان ، جلد : 11 ، صفحه : 4 ، طبع : دار المعرفة)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144601101052
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن