بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہجرت کی اقسام


سوال

ہجرت کی اقسام بیان کریں۔

جواب

لغت میں ”ہجرة" کے معنی ترک کے آتے ہیں اور عرف میں ترکِ وطن کو کہتے ہیں۔

پھر ترک وطن کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں:

کبھی تو آدمی کسی دنیوی مقصد کے لیے ترکِ وطن کرتا ہے، جیسے بہت سے لوگ تجارت کی غرض سے یا ملازمت کی نیت سے دوسرے ملکوں میں بس جاتے ہیں۔

بعض اوقات ترک اس لیے ہوتا ہے کہ اپنے وطن میں امن واطمینان نہیں ہوتا اور دوسری جگہ امن واطمینان ہوتا ہے تو آدمی مقام خوف سے مقام امن کی طرف منتقل ہوتا ہے ، جیسے حبشہ کی دونوں ہجرتوں میں ہوا ، مسلمانوں کو مکے میں امن حاصل نہیں تھا، ہر دم خوف لگا رہتا تھا، انھوں نے اس وطن کو چھوڑا اور حبشہ ہجرت کر گئے جہاں امن واطمینان تھا۔

اسی طرح جب ابتداء مسلمانوں نے مدینہ منورہ ہجرت کی تو مدینہ دار الامن تھا، البتہ جب حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور آپ کا وہاں استقرار ہو گیا تو وہ  دار الاسلام بن گیا اس کے بعد جن لوگوں نے ہجرت کی یہ ہجرت من دار الکفر الى دار الاسلام ہوئی، یہ ہجرت ترک وطن کی ایک تیسری صورت ہو گئی۔ 

پھر آخر زمانے میں ایک ہجرت اور ہوگی جو شام کی طرف ہوگی مسند احمد میں ایک حدیث ہے:

"ستكون هجرة بعد هجرة، فخيار أهل الأرض الزمهم مهاجر إبراهيم ....."

(مسند عبدالله بن عمرو بن عاص،ج:6،ص:349،ط:دارالحديث)

 شریعت میں ہجرت ترک معاصی کا نام ہے اور  یہ حکماً ہجرت ہے، کیوں کہ ہجرت کا حاصل بھی یہی ہے ، گویا  حقیقی ہجرت یہی ہےحضور اکرم صلی اللہ علیہ  و سلم نے فرمایا:

" المهاجر من هجر ما نهى الله عنه "

(مسند أحمد ،مسند عبدالله بن عمرو بن عاص ،ج:6،ص:390، ط:دار الحديث)

اس طرح  ہجرت کی  چار قسمیں ہو گئیں: ہجرت لغویہ ، ہجرت عرفیہ ، ہجرتِ شرعیہ  ،ہجرت ِ حکمیہ

پھر  ہجرتِ شرعیہ میں حکم کے اعتبار سے متعدد اقسام ہیں، اسی طرح  ہجرت ِ حکمیہ میں  اہل تصوف  نے  مختلف مدارج بیان کیے ہیں ۔

 ہجرت شرعی کی  اقسام میں سے ہجرت الی الحبشہ اور ہجرت الی المدینہ تو ختم ہو گئیں، هجرت من  دار الكفر إلى دار الإسلام اور هجرت إلى مهاجر إبراهيم باقی ہیں۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث"لا هجرة بعد الفتح ولكن جهاد و نية " میں ہجرت الی المدینہ کی نفی ہے ، اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حديث" لا تنقطع الهجرة التوبة، ولا تنقطع التوبة حتى تطلع الشمس من مغربها "  میں هجرت من دار الكفر إلى دار الإسلام مراد ہے ۔ (مستفاد :كشف البای،ج:2،ص:275)

إحكام الأحكام شرح عمدة الأحكام" میں ہے:

"قوله " فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله " اسم " الهجرة " يقع على أمور، الهجرة ‌الأولى: ‌إلى ‌الحبشة.عندما آذى الكفار الصحابة.الهجرة الثانية: من مكة إلى المدينة.الهجرة الثالثة: هجرة القبائل إلى النبي صلى الله عليه وسلم لتعلم الشرائع، ثم يرجعون إلى المواطن، ويعلمون قومهم.الهجرة الرابعة: هجرة من أسلم من أهل مكة ليأتي إلى النبي صلى الله عليه وسلم ثم يرجع إلى مكة.الهجرة الخامسة: هجرة ما نهى الله عنه"

(حديث : إنما الأعمال بالنيات، من أقسام الهجرة،ج:1 ،ص: 62،ط:مطبعة السنة المحمدية،الشاملة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102380

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں