بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مخنث کی کمائی مسجد میں لگانے کا حکم


سوال

ہیجڑے کا   پیسہ مسجد میں  دینا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مخنث( ہیجڑے)   کی کمائی اگر حلال ہے اور جائز ذرائع سے اس نے پیسہ کمایا ہے مثلاً  حلال تجارت وغیرہ کے ذریعے، یا پھر وراثت، ہدیہ  میں ملا ہو  تو  پھر وہ رقم مسجد میں لگائی جاسکتی ہے، لیکن اگر  اس کی کمائی ناجائز ذرائع مثلا   ناچ، گانے  وغیرہ سے حاصل شدہ ہے  تو پھر اس رقم کو مسجد میں لگانا جائز نہیں۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ}." (البقرة:267)

ترجمہ:"اے ایمان والو (نیک کام میں) خرچ کیا کرو عمدہ چیز کو اپنی کمائی میں سے اور اس میں سے جو کہ ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کیا ہے۔ اور ردی (ناکارہ) چیز کی طرف نیت مت لے جایا کرو کہ اس میں سے خرچ کرو حالانکہ تم کبھی اس کے لینے والے نہیں ہاں مگر چشم پوشی کرجاؤ (تو اور بات ہے) اور یہ یقین کر رکھو کہ اللہ تعالیٰ کسی کے محتاج نہیں تعریف کے لائق ہیں۔"

(بیان القرآن، البقرۃ:267)

مسند الدارمي " میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا أيها الناس إن الله طيب ‌لا ‌يقبل ‌إلا ‌الطيب، إن الله أمر المؤمنين بما أمر به المرسلين، قال: {يا أيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحا إني بما تعملون عليم} [المؤمنون: 51] وقال: {يا أيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم واشكروا لله إن كنتم إياه تعبدون} [البقرة: 172] " قال: " ثم ذكر الرجل يطيل السفر أشعث أغبر يمد يديه إلى السماء: يا رب يا رب ومطعمه حرام، وملبسه حرام، ومشربه حرام، وغذي بالحرام، فأنى يستجاب لذلك؟ ."

(كتاب الرقاق، باب في أكل الطيب، ج:2، ص:896، رقم:2743، ط:دار المغني للنشر والتوزيع)

ترجمہ:"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں:کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو!اللہ تعالی کی ذات  پاک ہے اور پاک چیز  ہی قبول فرماتے ہیں،(یعنی صرف وہی صدقات و اعمال مقبول ہوتے ہیں جو شرعی عیوب اور نیت کے فساد سے پاک ہوں) یاد رکھو اللہ تعالیٰ نے جس چیز (یعنی حلال مال کھانے اور اچھے اعمال) کا حکم اپنے رسولوں کو دیا ہے اسی چیز کا حکم تمام مؤمنوں کو بھی دیا ہے چناچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے  :اے پیغمبرو تم (اور تمہاری امتیں) نفیس چیزیں کھاؤ اور نیک کام (یعنی عبادت) کرو (اور) میں تم سب کے کیے ہوئے کو خوب جانتا ہو(المؤمنون 51) اور فرمایا:اے ایمان والو جو (شرع کی رو سے) پاک چیزیں ہم نے تم کو مرحمت فرمائی ہیں ان میں سے (جو چاہو) کھاؤ (برتو) اور حق تعالیٰ کی شکر گزاری کرو اگر تم خاص ان کے ساتھ غلامی کا تعلق رکھتے ہو۔ (البقرہ:172)  پھر اس شخص کا تذکرہ فرمایا جو لمباسفر کرتا ہے، پراگندہ اور غبار آلود، آسمان کی طرف ہاتھ پھیلاتا ہے: اے رب، اے  رب،حالاں کہ  اس کا کھانا حرام ہے، اس کا لباس حرام ہے، اس کا پینا حرام ہے،  پرورش اس کی حرام ہی غذاؤں سے ہوئی پھر کیونکر اس کی دعا قبول کی جائے۔؟ "

صحیح البخاری میں ہے:

"باب: لا يقبل الله صدقة من غلول، ولا يقبل إلا من كسب طيب...لقوله: {ويربي الصدقات والله لا يحب كل كفار أثيم. إن الذين آمنوا وعملوا الصالحات وأقاموا الصلاة وآتوا الزكاة لهم أجرهم عند ربهم ولا خوف عليهم ولا هم يحزنون} /البقرة: 276، 277."

(كتاب الزكاة، باب  لا يقبل الله صدقة من غلول، ولا يقبل إلا من كسب طيب، ج:2، ص:511، ط:دار ابن كثير)

ترجمہ:"اللہ تعالی حرام مال سے  صدقہ  قبول  نہیں کرتا اور نہ   کوئی کمائی قبول کرتا سوائے پاک و حلال کمائی کے؛اللہ تعالی کے قول کی وجہ سے :اور صدقات کو بڑھاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے کسی کفر کرنے والے کو ( اور) کسی گناہ کے کام کرنے والے کو۔ (276)بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے اور (بالخصوص) نماز کی پابندی کی اور زکوٰة دی ان کے لیے ان کا ثواب ہوگا ان کے پروردگار کے نزدیک اور (آخرت میں) ان پر کوئی خطرہ نہیں ہوگا اور نہ وہ مغموم ہونگے۔" (277)

فتح الباري بشرح البخاري میں ہے:

"أن الله لا يقبل إلا ما كان من كسب طيب، فمفهومه أن ‌ما ‌ليس ‌بطيب لا يقبل."

(كتاب الزكاة، باب  لا يقبل الله صدقة من غلول، ولا يقبل إلا من كسب طيب، ج:3، ص:279، ط:المكتبة السلفية)

عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں ہے:

"قال ابن عباس: أمرهم بالإنفاق من أطيب المال وأجوده وأنفسه، ونهاهم عن التصدق برذالة المال ورديئه وهو خبيثه، فإن الله طيب ‌لا ‌يقبل ‌إلا ‌الطيب."

(كتاب الزكاة، باب صدقة الكسب والتجارة، ج:8، ص:310، ط:دار إحياء التراث العربي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قال تاج الشريعة: أما لو ‌أنفق ‌في ‌ذلك مالا خبيثا ومالا سببه الخبيث والطيب فيكره لأن الله تعالى لا يقبل إلا الطيب، فيكره تلويث بيته بما لا يقبله."

(كتاب الصلوة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، فروع، ط:سعيد)

درر الحكام شرح غرر الأحكام" میں ہے:

"إذا أنفق في ذلك مالا خبيثا أو مالا مسببه الخبيث والطيب فيكره؛ لأن الله تعالى ‌لا ‌يقبل ‌إلا ‌الطيب فيكره تلويث بيته بما لا يقبله."

(كتاب لصلوة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، مكروهات الصلاة، ج:1، ص:111، ط:دار إحياء الكتب العربية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502100519

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں