بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حفظ کر کے بھولنے پر وعید


سوال

کیا قرآن مجید  حفظ کر کے بھول جانے پر گناہ ہے ؟ اور اگر ہے تو کتنا ہے ؟ اور کیا اس کا کوئی کفارہ ہو سکتا ہے؟

جواب

قرآنِ  کریم کو یادکرنے کے بعد جان بوجھ کر بھلادینا انتہائی سخت گناہ ہے، اورایسےشخص کے بارے میں حدیث شریف میں سخت وعیدات وارد ہوئی  ہیں، جیساکہ  مشکوۃ شریف کی روایت میں ہے :

"عن سعد بن عبادة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ما من امرئ يقرأ القرآن ثم ينساه إلا لقي الله يوم القيامة أجذم " . رواه أبو داود والدارمي".

ترجمہ : حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:  جو شخص قرآنِ  کریم پڑھ کر بھول جائے تو  وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کا ہاتھ کٹا ہوا ہو گا۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

2200 - (وعن سعد بن عبادة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من امرئ يقرأ القرآن ثم ينساه "، أي بالنظر عندنا، وبالغيب عند الشافعي، أو المعنى ثم يترك قراءته نسي أو ما نسي (إلا لقي الله يوم القيامة أجذم) ، أي: ساقط الأسنان، أو على هيئة المجذوم، أو ليست له يد، أو لا يجد شيئا يتمسك به في عذر النسيان، أو ينكس رأسه بين يدي الله حياء وخجالة من نسيان كلامه الكريم وكتابه العظيم، وقال الطيبي: أي: مقطوع اليد من الجذم وهو القطع: وقيل: مقطوع الأعضاء، يقال: رجل أجذم إذا تساقطت أعضاؤه من الجذام، وقيل: أجذم الحجة، أي: لا حجة له ولا لسان يتكلم به، وقيل: خالي اليد عن الخير (رواه أبو داود، والدارمي) وروى أبو داود والترمذي أنه صلى الله عليه وسلم قال: ( «عرضت علي أجور أمتي حتى القذاة يخرجها الرجل من المسجد، وعرضت علي ذنوب أمتي فلم أر ذنبا أعظم من سورة من القرآن، أو آية أوتيها رجل ثم نسيها»)."

( كتاب فضائل القرآن، 4 / 1502، ط: دار الفكر، بيروت - لبنان)

سنن أبي داود میں ہے:

461 - حدثنا عبد الوهاب بن عبد الحكم الخزاز، أخبرنا عبد المجيد بن عبد العزيز بن أبي رواد، عن ابن جريج، عن المطلب بن عبد الله بن حنطب عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "عرضت علي أجور أمتي حتى القذاة يخرجها الرجل من المسجد، وعرضت على ذنوب أمتي فلم أر ذنبا أعظم من سورة من القرآن أو آية أوتيها رجل ثم نسيها".

( كتاب الصلاة، باب في كنس المسجد، 1 / 346، ط: دار الرسالة العالمية)

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضي اللہ عنہ سے روایت ہے  کہ  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے سامنے میری امت کے اَجر و ثواب پیش کیے گئے یہاں تک کہ وہ کوڑا کرکٹ بھی (  اجر ثواب کے اعتبار سے پیش کیا گیا )  جو آدمی مسجد سے نکال پھینکتا ہے ۔ اور مجھ پر میری اُمت کے گناہ پیش کیے گئے تو  میں نے اس سے بڑا کوئی گناہ نہیں دیکھا کہ قرآن کی کوئی سورت یا کوئی آیت کسی آدمی کو  (یاد کرنے کی توفیق) دی گئی اور پھر اس نے اسے بھلا دیا۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

720 - (وعنه) أي: عن أنس (قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (عرضت علي): الظاهر أنه في ليلة المعراج (أجور أمتي)، أي: ثواب أعمالهم (حتى القذاة)، بالرفع أو الجر وهي بفتح القاف، قال الطيبي: القذاة هي ما يقع في العين من تراب أو تبن أو وسخ، ولا بد في الكلام من تقدير مضاف، أي: أجور أعمال أمتي، وأجر القذاة، أي: أجر إخراج القذاة إما بالجر، وحتى بمعنى (إلى) ، والتقدير إلى إخراج القذاة وعلى هذا (يخرجها الرجل من المسجد) : جملة مستأنفة للبيان، وإما بالرفع عما على أجور، فالقذاة مبتدأ أو يخرجها خبره (وعرضت علي ذنوب أمتي، فلم أر ذنبا) ، أي: يترتب على نسيان (أعظم من سورة) ، من ذنب نسيان سورة كائنة (من القرآن) ، فإن قلت: هذا مناف لما مر في باب الكبائر، قلت: إن سلم أن أعظم وأكبر مترادفان، فالوعيد على النسيان لأجل أن مدار هذه الشريعة على القرآن، فنسيانه كالسعي في الإخلال بها، فإن قلت: النسيان لا يؤاخذ به، قلت: المراد تركها عمدا إلى أن يفضي إلى النسيان، وقيل: المعنى أعظم من الذنوب الصغائر، إن لم تكن عن استخفاف وقلة تعظيم، كذا نقله ميرك عن الأزهار، (أو آية أوتيها) ، أي: تعلمها (رجل) ، وفي نسخة الرجل، وأو للتنويع (ثم نسيها) ، قال الطيبي: شطر الحديث مقتبس من قوله تعالى: {كذلك أتتك آياتنا فنسيتها وكذلك اليوم تنسى} [طه: 126] يعني على قول في الآية، وأكثر المفسرين على أنها في المشرك، والنسيان بمعنى ترك الإيمان، وإنما قال: أوتيها دون حفظها إشعارا بأنها كانت نعمة جسيمة أولاها الله ليشكرها، فلما نسيها فقد كفر تلك النعمة، فبالنظر إلى هذا المعنى كان أعظم جرما، وإن لم يعد من الكبائر، واعترضه ابن حجر وقال: قول الشارح وإن لم يعد من الكبائر عجيب، مع تصريح أئمتنا بأن نسيان شيء منه ولو حرفا بلا عذر كمرض وغيبة عقل كبيرة اهـ.

والنسيان عندنا أن لايقدر أن يقرأ بالنظر، كذا في شرح شرعة الإسلام، قال الطيبي: فلما عد إخراج القذاة التي لايؤبه له من الجحور تعظيما لبيت الله، عد أيضا النسيان من أعظم الجرم ; تعظيما لكلام الله سبحانه، فكأن فاعل ذلك عد الحقير عظيما بالنسبة إلى العظيم، فأزاله عنه، وصاحب هذا عد العظيم حقيرًا فأزاله عن قلبه (رواه الترمذي)، وقال: غريب نقله ميرك، (وأبو داود)، والمنذري، وابن ماجه، وابن خزيمة في صحيحه ذكره ميرك، قال ابن حجر: وأخرج الترمذي، وأبو داود أيضًا: «من قرأ القرآن ثم نسيه لقي الله يوم القيامة أجذم»."

( كتاب الصلاة، باب المساجد و مواضع الصلاة، 2 / 605، ط: دار الفكر، بيروت - لبنان) 

علامہ نواب قطب الدین خان دہلوی ؒ تحریر فرماتے ہیں:

"حنفیہ کے  نزدیک  بھول جانے سے مراد یہ ہے کہ دیکھ کر بھی نہ پڑھ سکے، جب کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے قرآن حفظ کیا، پھر اسے بھول گیا کہ حفظ نہ پڑھ سکے یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پڑھنا چھوڑ دے خواہ بھولے یا نہ بھولے۔

حضرت مولانا شاہ محمد اسحق فرمایا کرتے تھے کہ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ استعداد والے کا بھولنا تو یہ ہے کہ یاد کیے ہوئے کو بغیر دیکھے نہ پڑھ سکے اور غیر استعداد والے کا بھولنا یہ ہے کہ دیکھ کر بھی نہ پڑھ سکے۔

اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کو سیکھنے اور یاد کرنے کے بعد بھولنا بہت گناہ ہے؛  لہٰذا چاہیے کہ قرآن کے بارہ میں تغافل و کوتاہی کا راستہ اختیار نہ کیا جائے، بلکہ قرآن کو ہمیشہ اور بہت پڑھتے رہنا چاہیے‘‘۔

خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص اپنی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے قرآنِ  کریم بھول جائے وہ اس وعید میں شامل ہے، جو شخص مسلسل اپنی محنت اور عزم سے قرآن کریم کو یادکرتا رہے اور حافظہ کی کم زوری کی وجہ سے اگر پختگی  نہ رہ سکی تو امید ہے کہ ان شاء اللہ اس وعید سے محفوظ رہے گا۔

قرآن مجید بھولنے کا کفارہ یہی ہے کہ دوبارہ یاد کرنے کا آغاز کردیا جائے، اور روزانہ تلاوت کا اہتمام رکھا جائے، نیز گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔

مزید تفصیل کے  لیے دیکھیے:

قرآن مجید یاد کرکے بھول جانے پر وعید اور دوبارہ یاد کرنے کا طریقہ

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200439

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں