بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حفاظت کی غرض سے قبر کے ارد گرد بلاک لگانا


سوال

اگر قبر کی مٹی کو بہنےسے بچانے کے لیے ایک ایک بلاک اس کے ارد گرد(cemant) سے لگا دے تو کیا حکم ہے ؟

جواب

قبر  (یعنی جتنی جگہ میں میت ہے) پکی کرنے کے حوالے سے احادیث میں ممانعت آئی ہے، لہٰذا  قبر  پکی کرنا جائز نہیں، تاہم  قبر کو محفوظ بنانے کے لیے قبر کے ارد گرد ایسی  رکاوٹ لگادی جائے جس کے ذریعہ کسی جانور وغیرہ کو قبر تک رسائی ممکن نہ ہو، مثلاً قبر کے ارد گرد کانٹے رکھ دیے جائیں یا قبر کے اطراف میں اینٹوں کی باڑ لگانا اس طرح کہ میت کے جسم کے محاذ میں نیچے سے اوپر تک قبر کچی رہے، یہ جائز اور درست ہے، یعنی میت کا جسم چاروں جانب سے مٹی کے اندر رہے، اطراف کی جگہ اینٹیں لگادی جائیں تو حرج نہیں،تاکہ قبر محفوظ رہے۔(کفایت المفتی ، 4/50) 

لہذاصورتِ مسئولہ میں اگر قبر کی حفاظت کی غرض سے قبر کے اردگرد بلاک لگائے جائیں، جب کہ وہ میت کے محاذات میں بھی نہ ہوں، جائز ہے۔

سنن الترمذی میں ہے:

"١٠٥٢ - حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الأَسْوَدِ أَبُو عَمْرٍو البَصْرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: «نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُجَصَّصَ القُبُورُ، وَأَنْ يُكْتَبَ عَلَيْهَا، وَأَنْ يُبْنَى عَلَيْهَا، وَأَنْ تُوطَأَ». [ص: ٣٦٠] هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ". (بَابُ مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ تَجْصِيصِ القُبُورِ، وَالكِتَابَةِ عَلَيْهَا)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاحمیں ہے:

"قوله: "ولا يجصص" به قالت الثلاثة لقول جابر: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن تجصيص القبور، وأن يكتب عليها، وأن يبنى عليها. رواه مسلم وأبو د اود والترمذي وصححه". ( كتاب الصلاة، باب احكام الجنائز، فصل في حملها و دفنها، ص: ٦١١)

’ولم یکن من هدیه صلی اللّٰه علیه وسلم تعلیة القبور ولا بناء ها بآجر، ولا بحجر ولبن، ولا تشییدها، ولا تطیینها، ولا بناء القباب علیها، فکل هذا بدعة مکروهة مخالفة لهدیه صلی اللّٰه علیه وسلم، وقد بعث علي بن أبي طالب إلی الیمن ألا یدع تمثلاً إلا طمسه، ولا قبر مشرفاً إلا سَوَّاه فسنته صلی اللّٰه علیه وسلم تسویة هذه القبور المشرفة کلها، ونهى أن یجصص القبر، وأن یبنی علیه، وأن یکتب علیه، وکانت قبور أصحابه لا مشرفة ولا لاطئة، وهکذا کان قبره الکریم وقبر صاحبیه، فقبره صلی اللّٰه علیه وسلم مُسَنَّمٌ مبطوح ببطحاء العرصة الحمراء لا مبنيَّ ولا مطینَ، وهکذا کان قبر صاحبیه‘‘. (زاد المعاد۱/۵۰۵، فصل في تعلیة القبور، ط: موٴسسة الرسالة، بیروت)

فتاویٰ خانیہ میں ہے :

"ویکره الآجر في للحد إذا کان یلي المیت، أما فیما وراء ذلك لا بأس به". (الخانیة علی هامش الهندیة، 1/194)

حاشیۃ الطحطاویمیں ہے:

"(ويكره البناء عليه) ظاهر إطلاقه الكراهة أنها تحريمية، قال في غريب الخطابي: نهى عن تقصيص القبور وتكليلها. انتهى. التقصيص التجصيص والتكليل: بناء الكاسل، وهي القباب والصوامع التي تبنى على القبر ... وقد اعتاد أهل مصر وضع الأحجار حفظًا للقبور عن الإندارس والنبش ولا بأس به". (1/405) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110201133

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں