بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر کی حفاظت کے لیے کتا پالنے کا حکم


سوال

ہمارے گھر میں بعض دفعہ محلے کے بچے  کود کر گیند لے جاتے ہیں مجھے خدشہ ظاہر ہوا اس طرح کوئی بھی دیوار پھلانگ کر گھر میں آ سکتا ہے ، ایک دفعہ میری والدہ بچوں کو پکڑتے وقت گر گئی  تھی، کیا میرے لیے حفاظت کے لیے کتا رکھنا جائز ہے ؟ میں نے یہ بھی سنا ہے کہ اگر کتا صحن یا چھت پر ہو تو کتا گھر میں شمار نہیں ہوتا کیا یہ صحیح ہے ؟

جواب

احادیث میں کتا پالنے کی سخت ممانعت آئی ہے، جہاں کتا ہوتا ہے وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے ۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ  بلا ضرورت کتا پالنے والے کے اعمال  میں سے روزانہ ایک قیراط کم کر دیا جاتا ہے۔ لہذا کتوں کو گھر میں رکھنا  خیر  و برکت سے محرومی کا باعث ہے؛ اس لیے کتوں کے پالنے سے اجتناب بہت ضروری ہے، البتہ ضرورت کے لیے( جیسا کہ حفاظت اور شکار وغیرہ  کے لیے) کتا پالنے کی شرعاً اجازت ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ  میں اگر واقعۃً  چوروں یا کسی اور کا دیوار پھلانگ کرآنے کا اس قدر خوف ہے اور ان کے دفع کرنے کے لیے کوئی اور  ذریعہ ، علاج نہیں ہے تو ایسی مجبوری کی صورت میں بغرض حفاظت    کتا پالنے کی  گنجائش ہے، ورنہ نہیں، البتہ یہ بات درست نہیں ہے کہ  کتا اگر گھر کے صحن یا چھت پر ہو تو  گھر میں شمار نہیں ہوتا، لہذا کتے کو گھر سے باہر رکھا جائے۔

حدیث مبارک میں ہے:

"عن أبي طلحة رضي الله عنهم،عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا ‌تدخل ‌الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة."

ترجمہ: ’’رحمت کے فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر ہو یا کتا۔‘‘

(البخاري، كتاب بدء الخلق، باب  إذا وقع الذباب في شراب أحدكم فليغمسه، ج:3، ص:1206، رقم:3144، ط:دار ابن كثير)

 ایک اور حدیثِ پاک میں ہے:

"عن أبي هريرة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من ‌اتخذ ‌كلبا إلا كلب ماشية، أو صيد، أو زرع، انتقص من أجره كل يوم قيراط."

ترجمہ: ’’جس شخص نے جانور اور کھیتی وغیرہ کی حفاظت یا شکار کے علاوہ کسی اور مقصد سے کتا پالا، اس کے ثواب میں ہرروز ایک قیراط کم ہوگا۔‘‘

(الترمذي، ‌‌باب ما جاء من أمسك كلبا ما ينقص من أجره، ج:4، ص:80، رقم:1490، طمكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وفي الأجناس ‌لا ‌ينبغي ‌أن ‌يتخذ كلبا إلا أن يخاف من اللصوص أو غيرهم وكذا الأسد والفهد والضبع وجميع السباع وهذا قياس قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - كذا في الخلاصة...ويجب أن يعلم بأن اقتناء الكلب لأجل الحرس جائز شرعا وكذلك اقتناؤه للاصطياد مباح وكذلك اقتناؤه لحفظ الزرع والماشية جائز كذا في الذخيرة."

(كتاب الكراهية، الباب الحادي والعشرون فيما يسع من جراحات بني آدم والحيوانات، ج:5، ص:361، ط:دار الفكر)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"والانتفاع بالكلب للحراسة ‌والاصطياد ‌جائز إجماعا لكن لا ينبغي أن يتخذ في داره إلا إن خاف اللصوص أو عدوا وفي الحديث الصحيح "من اقتنى كلبا إلا كلب صيد أو ماشية نقص من أجره كل يوم قيراطان."

 (كتاب البيع، باب المتفرقات، ج:6، ص:188، ط:دارالفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501100270

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں