بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہبہ میں اولادکے درمیان کمی بیشی کے بعد تلافی کرنے کی صورت


سوال

2010میں والد کا انتقال ہو ا،ہم نے والد کی زمین فروخت  کی، جس کے بعد ہم دونوں بھائیوں کو میراث میں 58 ، 58 لاکھ روپے  حصے میں آئے ، والدہ کو بھی ساڑھے بارہ فیصد ملا ، والدہ نے اپنے حصے کے رقم میں اپنے والد کےحصے سے  آئی ہوئی وراثت کی رقم بھی شامل کرلی ، اس طرح والدہ کے پاس بھی 58 لاکھ روپے کی رقم ہوگئی ، میں نے  اپنے حصے کی رقم سے تین کمروں کا ذاتی فلیٹ لیا، جبکہ والدہ نے اپنے حصے کے 58 لاکھ روپے بڑے بھائی کو ہدیہ کردیے ، اس بنیادپر کہ وہ ان کے ساتھ رہیں گی ، بھائی نے اپنی اور والدہ کی رقم ملاکر کاایک بڑاپورشن لے لیا اور وہ گھر بھائی کے ملکیت پر ہے ، اس کے علاوہ والدہ نے بھائی کے  گھر کی تزئین وآرائش پر بھی وقتا فوقتا کافی رقم لگاچکی ہیں ، اور گزشتہ سال گاڑی کی مد میں بھائی کو مزید 5لاکھ روپے بھی ہدیہ کیے ہیں ، اب والدہ چھوٹے بیٹے کی  ساتھ  حق تلفی پر شرمندہ ہیں  اور تلافی کرنا چاپتی ہیں، تاکہ آخرت کے مواخذہ  سے محفوظ  رہیں ، اس کے لیے والدہ اپنے چھوٹے بیٹے کو آج سے دس سال پہلے دی گئی رقم 58 لاکھ ہی دیں ؟یاپھر بڑے بیٹے کے گھر کی موجودہ قیمت (جو تقریبا ساڑھے  تین سے چار کروڑ ہے )  کہ حساب سے آدھی رقم دے کر تلافی کریں ؟ بڑے بیٹے کو ہدیہ  کرنے کےبعد والدہ کی موجودہ ذاتی ملکیت میں پلاٹ ، سونا ، دوکان ، دفتر اور کاروبار میں حصہ شامل ہے ۔

جواب

واضح رہے کہ ہبہ میں اولاد کے درمیان   عدل و انصاف اوربرابری کا حکم ہے یعنی جتنا ایک کو دیاجائے ،اتناہی  دوسرے  کو بھی  دیاجائے، کسی کو محروم کرنایابلاوجہ کمی بیشی کرنا شرعاناجائز ہے ۔

 صورت مسئولہ  میں  سائل کی والدہ نے   بڑے بیٹے کو 58 لاکھ روپے ہدیۃ دیے تھے ،جبکہ چھوٹے بیٹے کچھ نہیں دیا تھا، اب جب  والدہ  اس کی تلافی کرناچاہتی ہے  تو  والدہ چھوٹے  بیٹے کو بھی  58 لاکھ روپے دیدیں، مکان کی موجودہ مالیت کے حساب سے دینا لازم نہیں ہے  ۔اسی طرح والدہ نے بڑے بیٹے کو پانچ لاکھ روپے گاڑی خریدنے کے مد میں جو رقم دی ہے ، والدہ چھوٹے بیٹے کو بھی اتنی ہی رقم دیدیں ۔

البتہ   اگر بڑابیٹاوالدہ کی خدمت  گار ہو  یا دیندار ہو  تو اسے  دیگر کے مقابلے میں کچھ زیادہ دینا بھی جائز ہے ۔

شرح معاني الآثار میں ہے :

"عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ عَلَى مِنْبَرِنَا هَذَا يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سَوُّوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ فِي الْعَطِيَّةِ كَمَا تُحِبُّونَ أَنْ يُسَوُّوا بَيْنَكُمْ فِي الْبِرِّ۔"

(کتاب الھبہ۔ج4۔ص86ط:عالم الكتب)

حضرت شعبی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سنا  ہمارے اس منبر پر،  فرمارہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انصاف کرو تم اپنے اولاد کے درمیان عطیہ میں جیساکہ تم پسند کرتے ہو کہ وہ برابری کرے تمہارے ساتھ نیکی میں  ۔

البحر الرائق  میں ہے:

"(قوله فروع) يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلالزيادة فضل له في الدين۔"

(کتاب الھبہ ،ص:288  ،ج:7   ط:دارالکتب الاسلامی)

فتاوی ھندیہ میں ہے:

"ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية."

(کتاب الھبہ ،ص:391،ج:4،  ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100062

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں