بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر اپنی بیوی کو مہر میں مکان دے تو بیوی مالک بن جائے گی


سوال

میرے والد صاحب نے مکان خرید کر میری والدہ کو حق مہر میں دے دیا، اور لیز بھی والدہ کے نام ہی کرائی، پھر والد صاحب کا انتقال ہوگیا، والد کے ورثاء میں ایک بیوہ، چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے، والد کے انتقال کے بعد والدہ نے یہ مکان ایک کروڑ بیس لاکھ میں چھوٹے بیٹے کو فروخت کردیا، رقم کی ادائیگی ابھی تک نہیں ہوئی، اور کاغذات ٹرانسفر کر دیے،  وصول کرنے سے پہلے ہی والدہ نے زبانی طور پر  اس مکان کی پیمنٹ میں سے ایک تہائی اپنے لیے رکھنے کا کہا، اور باقی دو تہائی تمام اولاد میں منہ زبانی برابر برابر تقسیم کر دیا، لیکن عملا رقم تقسیم نہیں کی؛ کیوں کہ  قیمت وصول نہیں ہوئی،  پھر وہ ایک تہائی بھی والدہ نے اسی خریدنے والے چھوٹے بیٹے کو قرض  کے طور پر منہ زبانی دے دیا،  اور والدہ نے یہ بھی کہا کہ اگر یہ رقم آپ نے میری زندگی میں دے دی تو ٹھیک ورنہ یہ آپ کی ہوگی، اب جو رقم والدہ نے ہم بہن بھائیوں میں تقسیم کی ہے وہ بھائی نے ادا نہیں کی ہے، رفتہ رفتہ ادا کر رہا ہے، چھوٹے بھائی نے اس مکان پر تیس ہزار روپے بھی خرچ کیے ہیں، اب والدہ اس مکان کو اس بیٹے کے نام پر ٹرانسفر کرنا چاہتی ہے، دریافت طلب امر یہ ہے کہ مذکورہ معاملہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل کے والد نے اپنی بیوی (سائل کی والدہ) کو مکان حق مہر میں دیا تھا تو اس سے والدہ مذکورہ مکان کی مالک بن گئی تھی، اس کے بعد والدہ نے  اپنے چھوٹے بیٹے کو وہ مکان بیچ دیا  تو ان کا بیچنا بھی درست تھا ،   اور مکان اب اس چھوٹے بیٹے کی ملکیت ہے، والدہ مکان اس بیٹے کے نام ٹرانسفر کر سکتی ہے۔

نیز والدہ کا مکان کی قیمت وصول کرنے سے پہلے اپنی اولاد میں تقسیم کرنا اور انہیں ہبہ (گفٹ) کرنا قابلِ اعتبار نہیں  ہے؛ کیوں کہ یہ ہبہ (گفٹ) ہے، اور گفٹ درست اور مکمل ہونے کے لیے قبضہ دینا ضروری ہے،  مذکورہ صورت میں جب تک مکان کی قیمت وصول نہ ہو جائے رقم پر قبضہ دینا ممکن ہی نہیں ہے، اس لیے بیٹے پر لازم ہے کہ مکان کی قیمت اپنی والدہ کو ادا کرے، اس کے بعد اگر والدہ اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہتی ہیں تو بقدرِ ضرورت اپنے لیے رکھ کر باقی  بشمول خریدار بیٹے کے اپنی تمام اولاد   میں برابر برابر تقسیم کر کے ہر ایک کو اپنے اپنے حصے پر قبضہ و تصرف دے دیں، بلا وجہ شرعی تقسیم میں کمی بیشی  کرنا جائز نہیں ہے، الا یہ کہ کسی بیٹے یا بیٹی کو ان کی تنگدستی یا خدمت گزاری یا دینی شرافت کی وجہ سے کچھ زیادہ دیں تو جائز ہے۔

باقی زیرِ نظر مسئلہ میں والدہ نے مکان کی جو رقم اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کی ہے اسے فقہی اعتبار سے’’هبة الدين‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی ’’قرض کا ہبہ کرنا‘‘، ’’هبة الدين‘‘ کا حکم یہ ہے کہ جس پر دین (قرض) ہو اگر اسے ہبہ کیا جائے تو اس کے حق میں ہبہ اسی وقت درست ہوجاتا ہے؛ کیوں کہ موہوبہ چیز پہلے ہی سے اس کے قبضہ میں ہے، اور اگر ’’غير  من عليه الدين‘‘ (یعنی جس پر قرض نہ ہو اس) کو ہبہ کیا جائےتو اگر موہوب لہ نے واہب کی زندگی میں قبضہ نہیں کیا تو وہ ہبہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، اس صورت میں واہب کے انتقال کے بعد اس کے تمام شرعی ورثاء میں وہ موہوبہ چیزبطور ترکہ  تقسیم ہوگی، اور اگر واہب کی زندگی میں قبضہ کر لے تو ہبہ درست ہوجاتا ہے، لہذا زیرِ نظر مسئلہ میں خریدار بیٹے کے علاوہ باقی اولاد اگر والدہ کی زندگی میں موہوبہ رقم پر قبضہ کرلے گی توان کے حق  ہبہ درست ہوگا ورنہ نہیں۔

 والدہ کا اپنے چھوٹے بیٹے کو مکان کی ایک تہائی قیمت بطورِ قرض کے دینا جائز ہے، لیکن ان کا  یہ کہنا کہ ’’اگر میری زندگی میں آپ نے قرض کی رقم ادا نہیں کی تو یہ رقم آپ کی ہوگی‘‘ درست نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ موت کے بعد قرض کی ادائیگی سے بری کرنا ہے جو کہ وصیت کے حکم میں ہے، اور شرعی وارث کے لیے وصیت کرنا شرعاً معتبر نہیں ہے۔

البتہ والدہ کے انتقال تک چھوٹے بیٹے نے اگر یہ رقم ادا نہیں کی تو انتقال کے بعد اس وقت موجود تمام  عاقل، بالغ شرعی ورثاء اگر والدہ کی اس وصیت پر عمل کرنے پر راضی ہوں تو وصیت پر عمل کرنا جائز ہوگا، وگرنہ والدہ کی میراث  کے ساتھ مذکورہ رقم شامل کرکے تمام ورثاء میں شرعی تقسیم کے مطابق تقسیم کرنا ضروری ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"المرأة ‌تملك ‌المهر قبل القبض ملكا تاما إذ الملك نوعان: ملك رقبة، وملك يد، وهو ملك التصرف، ولا شك أن ملك الرقبة ثابت لها قبل القبض، وكذلك ملك التصرف؛ لأنها تملك التصرف في المهر قبل القبض من كل وجه."

(كتاب النكاح، فصل في جواز و افساد نكاح اهل الذمة، ج:2، ص:313، ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(‌هبة ‌الدين ممن عليه الدين وإبراؤه عنه يتم من غير قبول)...(تمليك الدين ممن ليس عليه الدين باطل إلا).... (إذا سلطه) أي سلط المملك غير المديون (على قبضه) أي الدين (فيصح) حينئذ.

(قوله: من غير قبول) لما فيه من معنى الإسقاط.

(قوله على قبضه) أي وقبضه قال في جامع الفصولين: ‌هبة ‌الدين ممن ليس عليه لم تجز إلا إذا وهبه وأذن له بقبضه جاز."

(كتاب الهبة، فصل في مسائل متفرقة، ج:5، ص:708، ط:سعيد)

فیہ ایضاً:

"وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد ‌تفضيل ‌البعض ‌على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى."

(كتاب الوقف، مطلب في المصادقة علي النظر، ج:4، ص:444، ط: سعيد)

الموسوعہ الفقہیہ میں ہے:

"ثبتت مشروعية القرض بالكتاب والسنة والإجماع ،  أما الكتاب، فبالآيات الكثيرة التي تحث على الإقراض، كقوله تعالى {من ذا الذي يقرض الله قرضا حسنا فيضاعفه له أضعافا كثيرة}  ، ووجه الدلالة فيها أن المولى سبحانه شبه الأعمال الصالحة والإنفاق في سبيل الله بالمال المقرض، وشبه الجزاء المضاعف على ذلك ببدل القرض، وسمى أعمال البر قرضا؛ لأن المحسن بذلها ليأخذ عوضها، فأشبه من أقرض شيئا ليأخذ عوضه."

(مصطلح:قرض، مشروعية القرض، ج:33، ص:112، ط:مطابع دار الصفوة)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"وإن علق (الإبراء) على الموت...يكون حينئذ في معنى الوصية."

(القسم الثالث العقود او التصرفات، الفصل الرابع عشر الإبراء، المبحث الثالث ...الخ، ج:6، ص:4379، ط: دار الفكر)

فیہ ایضاً:

"وهذا شرط لنفاذ الوصية عند الجمهور، فإنهم قرروا أن الوصية صحيحة لكن لا تجوز الوصية لوارث ولا تنفذ إذا لم يجزها الورثة."

(القسم السادس الاحوال الشخصية، الباب الرابع الوصايا، الوصية للوارث، ج:10، ص:7476، ط:دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404101710

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں