بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہبہ اور صلح رحمی سے متعلق چند سوالات


سوال

1) ہم تین بھائی اور آٹھ بہنیں ہیں، میں سب سے چھوٹا ہوں، میرے ابو کا  پٹرول پمپ ہے، میرا منجھلا  بھائی ابو سے سارا پٹرول پمپ اپنے نام لکھوانا چاہ رہا ہے اور سب کا حق مارنا چاہ رہا ہے، اور بہنوں سے دستاویز پر دستخط کروا رہا ہے جس میں میرے ابو ان کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں کیا ابو کو ایسا کرنا چاہیے؟

ابو   ان بہنوں سے کہہ رہے ہیں کہ میری بات مانو میں آپ کو کیش نقد رقم میں سے کچھ دے دوں گا ،فقط آپ اپنے بھائی کو لکھ کر دے دو کہ ابو کے بعد  آپ کا پیٹرول پمپ میں کوئی حصہ نہ ہوگا ابو صرف ایک بیٹے کو اپنی پراپرٹی دے رہے ہیں ،اور باقی ہم دو بھائیوں کو بھی نہیں دے رہے ۔

2)میں  اپنے اس بھائی سے بات بھی نہیں کرتا کہ ان سے تعلق رکھنا میرے لیے تکلیف کا باعث ہے کیا میرا عمل درست ہے؟

3)کیا ہم ابو سے بھی قطع تعلق کر سکتے ہیں  مذکورہ زیادتی کی وجہ سے ؟

جواب

واضح رہے کہ زندگی میں  والدین جو کچھ اپنی اولاد کو دیتے ہیں اس کی حیثیت وراثت کی نہیں ہوتی،اس لیے کہ وراثت کی تقسیم مورث  کی موت کے بعد  ہوتی ہے، بلکہ اس کی شرعی حیثیت ہبہ کی ہوتی ہے، اور ہبہ کے حوالے سے شریعتِ مطہرہ نے والد ین کو پابند کیا ہے کہ وہ اپنی اولاد میں برابری کریں، کسی معقول شرعی عذر کے بغیر کسی کو کم اور کسی کو زیادہ، یا کسی کو دینے اور کسی کو محروم رکھنے کا اختیار نہیں دیا ہے،کسی کو دینا اور کسی کو بالکل محروم کر دینا گناہ کا سبب ہے ۔

حدیث شریف میں   ہے:

'' وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم.''

(مشکاۃ  المصابیح، باب العطایا،1/261،ط: قدیمی)

ترجمہ:’’حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا:  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔‘‘(مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط: دارالاشاعت)

1. لہذا صورتِ مسئولہ میں  سائل کے والد کا مذکورہ پٹرول پمپ تنہا ایک بیٹے کےنام کرنا اور باقی سب اولاد کو محروم کرنا  درست نہیں ہے ،بلکہ  ایسا کرنا گناہ ہے ،اس کے باوجود  اگر  والد نےاپنی زندگی میں مذکورہ پٹرول پمپ بیٹے کو مالکانہ حقوق کے ساتھ  دے کر قبضہ  دے دیا ،تو اس سے بیٹاپٹرول پمپ کا مالک بن جائے گا ،اور پھر دوسرے بہن بھائیوں کا اس میں کوئی حق وحصہ نہیں ہوگا۔

2. بھائی سے بالکلیہ تعلقات ترک کر دینا کہ سلام وکلام کی نوبت بھی نہ آئے درست نہیں ،اگر  گھر آمدورفت سے تکلیف ہوتی ہو تو   کم از کم بھائی سے دعا سلام کر لیا کریں ،قطع رحمی شریعت میں جائز نہیں ہے ،آپ ﷺ نے برائی کرنے والوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ترغیب دی ہے ۔

3.واضح رہےکہ شریعت میں  اولاد کے والد ین پر اور والدین کے اولاد پر  حقوق واضح کردیے گئے ہیں،شرعًا والدین کے اولادپر  بہت سے  حقوق ہیں ،قرآنِ کریم اور احادیثِ نبوی  میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی خدمت کی بہت زیادہ تاکید آئی ہے،یہاں تک کہ اگر والدین مشرک ہوں تو تب بھی ان کے ساتھ  حسنِ سلوک کا درس دیا گیا ہے ،چہ جائے کہ زیادتی کی وجہ سے قطع تعلقی کرنا ،یہ کسی صورت جائز نہیں ہے ،بلکہ ایسی صورت حال میں اللہ سے دعا کرنی چاہیے اور والدین کے بقیہ احسانات کو یا د کرنا  چاہیے ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل یا اس کے دیگر بہن بھائیوں کے لیے   والد محترم سے قطع تعلقی کرنا جائز نہیں ہے ۔

قرآن  کریم میں ہے:

"{وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا  وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا}."(سورۃ الإسراء: 23،24)

ترجمہ :"اور تیرے رب  نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی  عبادت مت کرو، اور تم (اپنے)  ماں  باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو،  اگر  تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں، سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں  بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا ، اور ان سے خوب اَدب سے بات کرنا، اور ان کے سامنے شفقت سے، انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا  کہ اے  پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیں جیساکہ انہوں  نےمجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے۔"(بیان القرآن  2/ 374، ط:رحمانیہ)

صحیح البخاری میں ہے:

"وعن أنس: سُئِلَ النبي صلى اللَّه عليه وسلم عن الكبائر فقال: الإشراك باللَّه، وعقوق الوالدين،وقتل النفس، وشهادة الزور".

(كتاب الشهادات2/374ط: دار النوادر)

ترجمہ :" حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کبائر کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا اور والدین کی نافرمانی کرنا کسی آدمی کا قتل کرنا جھوٹی گواہی دینا ۔"

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أصبح مطيعا لله في والديه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن كان واحدا فواحدا. ومن أمسى عاصيا لله في والديه أصبح له بابان مفتوحان من النار وإن كان واحدا فواحدا» قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه."

(باب البر والصلة،الفصل الثالث3/ 1382،ط: المكتب الإسلامي)

ترجمہ: "حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع وفرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے۔ اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے۔ ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔"

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي بكرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كل الذنوب يغفر الله منها ما شاء إلا عقوق الوالدين فإنه يعجل لصاحبه في الحياة قبل الممات."

(باب البر والصلة،الفصل الثالث3/ 1383،ط: المكتب الإسلامي)

ترجمہ : "رسول کریمﷺ نے فرمایا ؛ شرک کے علاوہ تمام گناہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے جس قدر چاہتا ہے بخش دیتا ہے، مگر والدین کی نافرمانی کے گناہ کو نہیں بخشتا، بلکہ اللہ تعالیٰ ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے کو موت سے پہلے اس کی زندگی میں  جلد ہی سزا  دے دیتا ہے"۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعن جابر قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: «اتقوا الظلم» ) أي: المشتمل على الشح وغيره من الأخلاق الدنية والأفعال الردية ( «فإن الظلم ظلمات يوم القيامة» ) ، قال الطيبي: محمول على ظاهره، فيكون الظلم ظلمات على صاحبه لا يهتدي بسببها."

(کتاب الزکوۃ،باب الإنفاق وكراهية الإمساك4/1321،ط:سعید)

"بدائع الصنائع"میں ہے:

 "ولأن في التسوية تأليف القلوب والتفضيل يورث الوحشة بينهم فكانت التسوية أولى ولو نحل بعضا وحرم بعضا جاز من طريق الحكم لأنه تصرف في خالص ملكه لا حق لأحد فيه ."

(كتاب الهبة، فصل في شرائط ركن الهبة، ج:6، ص:127، ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرًا أحدًا لآثرت النساء على الرجال»، رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم»، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية : و لو وهب شيئًا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره، و روى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم، وعليه الفتوى، و قال محمد : ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزيًا إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف :وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل".

كتاب الوقف،مطلب متى ذكر الواقف شرطين متعارضين يعمل بالمتأخر،4/ 444 ،ط:سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے :

"ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية."

(كتاب الهبة، الباب السادس في الهبة للصغير، 4/ 391 ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508100021

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں