بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہبہ بعد القبض کا حکم


سوال

ہم دو بھائی ہیں، ایک ہمارا چچا ہے، اور ایک ہماری پھوپھی ہے، ہمارے والد مرحوم کا دادا سے پہلے انتقال ہوگیا تھا، دادا کی ملکیت میں ساٹھ کنال زمین تھی، تو ہمارے دوسرے رشتہ داروں نے دادا سے کہا کہ آپ کی وفات کے بعد پوتوں کو میراث میں کوئی حصہ نہیں ملے گا، لہذا آپ اپنی زندگی میں کچھ حصہ اپنے پوتوں کو ہبہ کردو، پھر دادا نے اٹھارہ کنال زمین ہم کو ہبہ کردی، ہم دونوں بھائیوں کو الگ الگ نو نو کنال زمین ہبہ  کرکے قبضہ بھی دے دیا، اور ہمارے نام بھی کردی، کچھ عرصہ بعد دادا نے باقی  (42 کنال)  زمین ساری کی ساری چچا کو ہبہ کرکے قبضہ بھی دے دیا،لیکن پھوپھی کو کچھ نہیں دیا، پھر دس سال بعد دادا کا انتقال ہوا، دادا کے انتقال کے پچیس سال بعد پھوپھی نے ہمارے اوپر اور ہمارے چچا کے اوپر کیس کیا کہ اس زمین میں میرا بھی حصہ ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا ہماری پھوپھی کا اس زمین میں حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ اگر بنتا ہے تو ہمارے ساتھ یا ہمارے چچا کے ساتھ یا دونوں کے ساتھ؟

واضح رہے کہ دادا نے ہمیں زمین مرض الوفات سے پہلے دی تھی، مرض سے پہلے سارے معاملات طے ہوچکے تھے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل کے دادا نے اپنے دونوں پوتوں (سائل اور اس کے بھائی) کو اور اپنے بیٹے (سائل کے چچا) کو اپنی زندگی میں مرض الوفات سے قبل مذکورہ زمین ہبہ کرکے قبضہ دے دیا تھا، تو یہ زمین سائل کے دادا کی ملکیت سے نکل کر پوتوں اور چاچا کی ملکیت میں منتقل ہوچکی تھی، لہذا اس میں سائل کی پھوپھی کا شرعاً حصہ نہیں ہے، البتہ دادا نے پوتوں کو 9-9 کنال زمین دینے کے بعد ساری زمین اپنے ایک بیٹے کو دے دی، اور بیٹی کو کچھ نہیں دیا، تو اس غیر منصفانہ و غیر شرعی تقسیم کی وجہ سے وہ گناہ گار ہوئے ہیں، اب بہتر یہ ہے کہ چچا اپنے والد مرحوم کے ساتھ احسان کا معاملہ کرتے ہوئے پھوپھی کو کچھ حصہ دے کر راضی کرنے کی کوشش کرے، تاکہ والد مرحوم آخرت کی پکڑ سے محفوظ رہیں۔

مبسوط سرخسی میں ہے:

"ثم الملك لا يثبت في الهبة بالعقد قبل القبض - عندنا .... وحجتنا في ذلك ما روي عن النبي - صلى الله عليه وسلم -: لا تجوز الهبة إلا مقبوضة، معناه: لا يثبت الحكم، وهو الملك؛ إذ الجواز ثابت قبل القبض بالاتفاق."

(کتاب الہبۃ،ج:12، ص:48 ،ط: دارالمعرفۃ بیروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وفي الخانية ولو وهب شيئا ‌لأولاده ‌في ‌الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى."

(کتاب الوقف، مطلب:فی المصادقہ علی النظر، ج:4، ص:444، ط:سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ولو وهب رجل شيئا ‌لأولاده ‌في ‌الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية."

(کتاب الہبہ، الباب السادس فی الہبہ للصغیر، ج:4، ص:391، ط:مصر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100791

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں