بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہبہ میں قبضہ ضروری ہے


سوال

1۔میرے والد نے اپنے زندگی میں ایک مکان خریدا تھا، 2007 میں والد مرحوم نے یہ گھر میرےاور میری بیوی کے نام کرایا، البتہ وفات تک والد مرحوم ہمارے ساتھ اسی گھرمیں رہائش پذیر تھے،2019 میں والد مرحوم کا انتقال ہوا، ورثاء میں دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے،یہ مکان میرا اور میری بیوی کا ہے؟ یا مرحوم کا ترکہ ہے؟

1۔میر بھائی نے  ایک گھر خرید کر والد مرحوم  کوبطورِ تملیک کے دے دیا ، جب کہ بھائی خود الگ گھر میں رہتے تھے، جب یہ گھر والد صاحب کی ملکیت ہوگیا تو میں بھی والد صاحب  کے ساتھ رہنے لگا،  کچھ عرصہ بعد  میرے بھائی کی بیٹی کی شادی تھی،تو بھائی والد صاحب سے کہنے  لگا کہ  اس گھر کو بیچ کر مجھے پیسے دے دیں، کیوں کہ یہ گھر تو میں نے خریدا  تھا،کیا میرے بھائی کا والد سے یہ رقم واپس  لینا درست تھا؟ جب کہ بھائی نے دیتے وقت کوئی معاہدہ نہیں کیا تھا۔

جواب

 صورتِ  مسئولہ میں سائل کےبیان کے مطابق والد نے  اپنا گھر اپنے بیٹے اور بہو کے نام کروادیا تھا، مکان خالی کرکے   بیٹے اور بہوکو مالکانہ قبضہ   نہیں دیااور آخرتک والد صاحب اسی مکان میں رہائش پزیر رہے،تواس مکان میں   شرعًاہبہ (گفٹ )  مکمل نہیں ہوا  ، اور مکان  بدستورسائل کے   والد   مرحوم  کی ملکیت ہی رہا، اب  جب  سائل کے والد کا انتقال ہوا ہے،  تو شرعًا یہ  مکان  سائل کے والد کا ترکہ ہوگا ، جو ان کے شرعی ورثاء میں  ان کے شرعی حصوں کے تناسب سےتقسیم ہوگا۔

 2۔واضح رہے کہ ذی رحم محرم ( جیسا ماں ، باپ ، بیٹا، بیٹی ) کو ہبہ کرنے کے بعد  رجوع جائز نہیں، لیکن البتہ اگر  واہب کے مطالبہ کے بعد موہوب لہ   واپس کرنے پر راضی ہوکر  اس چیز کو واپس   کردے تو ایسی صورت میں واہب کی ملکیت ثابت ہوجاتی ہے، مذکورہ تمہید کے بعد  واضح ہو کہ سائل کے بھائی  نےاگر واقعۃً یہ مکان والد کو بطورِ ہبہ  دے دیا تھاتو اس کے بعداس کے لیے اپنے والد سے مذکورہ گھر کا مطالبہ  اور اسے واپس  لینا جائز نہیں تھا ،لیکن جب سائل کے والد نے  بیٹے کے کہنے پر گھر بیچ کر رقم بیٹے کو دے دی، تو  اس  سے بیٹا مذکورہ رقم کا مالک ہو گیا تھا ، لہذا   والد کے انتقال کے بعد  دیگر ورثاء کےلیے اس رقم کے مطالبہ کا حق نہیں ہے۔

1۔فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".

(ج؛ 5/ص؛690/کتاب الھبۃ، ط ؛ سعید)

1۔البحرالرائق ميں هے:

"وفي الموهوب ‌أن ‌يكون ‌مقبوضا غير مشاع متميزا غير مشغول على ما سيأتي تفصيله وركنها هو الإيجاب والقبول وحكمها ثبوت الملك للموهوب له غير لازم حتى يصح الرجوع والفسخ"

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق7/ 284، ط:دار الكتاب الإسلامي)

2۔الموسوغۃ الفقہیۃ میں ہے:

"الهبة لصلة الرحم - لا رجوع في الهبة لذي رحم محرم من الواهب. و حجتهم ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم: الواهب أحق بهبته ما لم يثب منها ومعناه أن للواهب أن يرجع ما لم يعوض، وصلة الرحم عوض معنى؛ لأن التواصل سبب للتناصر والتعاون في الدنيا وسبب للثواب في الآخرة.كما أن الشرع قد أمر بصلة الرحم، وأن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قد منع الرجوع في مثل هذه الهبة.أما إذا كانت الهبة لذي رحم غير محرم فيجوز الرجوع لقصور معنى الصلة، فلايكون في مدى العوض."

(الموسوعة الفقهية الكويتية،42/ 151،دارالسلاسل)

2۔فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ليس له حق الرجوع بعد التسليم في ذي الرحم المحرم وفيما سوى ذلك له حق الرجوع إلا أن بعد التسليم لا ينفرد الواهب بالرجوع بل يحتاج فيه إلى القضاء أو الرضا."

(الفتاوى الہندیۃ  4/ 385،دارالفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100846

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں