بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہبہ (گفٹ) مکمل ہونے کی شرائط اور ہبہ کرنے والا جس مکان میں موجود ہو اس کا ہبہ کرنا / مشترکہ ہبہ


سوال

میری دادی نے اپنے بچوں کو ورثہ بانٹ دیا ہے، اب جس گھر میں رہتی ہیں اس گھر کا میرے والد اور میری پھوپھی کا حصّہ زبانی کہا تھا اور گھر میری پھوپھی کے  نام پر رکھا ہے، اب میرے والد کا انتقال ہوگیا۔

اب میری دادی اور میری والدہ  الگ گھر میں رہتی ہیں، ان کی آپس میں نہیں بنتی تو میری دادی نے کہا کہ  اب میرا بیٹا زندہ نہیں تو اس کا کوئی حصّہ نہیں بنتا تو کیا یہ جائز ہے؟ اور کیا میری والدہ کا میری دادی سے حصّے کا کہنا جائز ہوتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ انسان کا اپنی زندگی میں اپنی جائیداد میں سے کسی کو کچھ دینا ہبہ (گفٹ) کہلاتا ہے، اور   ہبہ (گفٹ) کے مکمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ واہب (ہبہ کرنے والا) موہوبہ چیز (جس چیز کا ہبہ کیا جارہاہے)  کو موہوب لہ (جس کو ہبہ کررہا ہے) کے نام کرنے کے ساتھ اس کا مکمل  قبضہ اور تصرف بھی دے دے، اور ہبہ کے وقت موہوبہ چیز سے اپنا تصرف مکمل طور پر ختم کردے، ورنہ شرعاً ہبہ درست نہیں ہوتا، اور چند افراد کو مشترکہ طور پر ہبہ  کرنے کی صورت میں  یہ بھی  ضروری ہے  کہ ہر  ایک کا حصہ  متعین  کرکے  باقاعدہ تقسیم کرکےاس  کو دیا جائے، ورنہ تقسیم کیے بغیر مشترکہ ہبہ درست نہیں ہوتا۔

نیز ہر چیز کا قبضہ اسی چیز کے حساب سے ہوتا ہے،   مکان کے قبضہ کے تام ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ  واہب ( مالک) اپنا سامان اس میں سے نکال دے اور خود بھی کچھ  وقت کے لیے اس میں سے نکل جائے،  اور اگر مکان میں موجود سامان بھی مکان کے ساتھ ہبہ کردیا جائے  تو پھر اس مکان اور  موہوب لہ (جس کو ہبہ کیا جارہا ہے)  میں تخلیہ کردینا کافی ہے، اور  تخلیہ کہ صورت یہ ہے کہ  واہب کچھ وقت کے لیے اس مکان سے نکل جائے تو موہوب لہ ( جس کو ہبہ کیا جارہا ہے) کا قبضہ تام ہوجائے گا،  پھر ہبہ کرنے والا اگر موہوب لہ( جس کو ہبہ کیا جارہا ہے) کی اجازت سے اس مکان میں رہائش اختیار کرے تو یہ ہبہ کے تام ہونے سے مانع نہیں ہوگا۔ لیکن اگر ہبہ کرنے والا خود اس مکان میں موجود ہو  یا اس کا سامان موجود ہو اور وہ صرف مکان کسی کو گفٹ کردے تو  یہ گفٹ مکمل نہیں ہوتا۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے  صورتِ مسئولہ میں آپ کی دادی نے  اپنے جن بچوں کے درمیان  زندگی میں اپنی جائیداد الگ الگ کرکے باقاعدہ تقسیم کرکے گفٹ کردی اور اس پر قبضہ اور تصرف کا اختیار بھی دیا تو وہ اس کے مالک ہوگئے ہیں، اور جن کو باقاعدہ تقسیم کرکے قبضہ نہیں دیا تو ان کے حق میں ہبہ مکمل نہیں ہوا ہے۔

لہذا جس مکان میں آپ کی دادی خود رہائش پذیر تھیں اور انہوں نے وہ مکان تقسیم کیے بغیر صرف آپ کے ابو اور پھوپھی کے نام کردیا اور خود بھی اس میں رہائش پذیر رہیں تو  یہ ہبہ (گفٹ) مکمل نہیں ہوا،  مذکورہ مکان بدستور آپ کی دادی کی ملکیت میں برقرار ہے۔

نیز آپ کے والد کا انتقال اپنی والدہ (آپ کی دادی) کی حیات میں انتقال ہونے کی وجہ سے اب دادی کی میراث میں آپ لوگوں کا کوئی حق وحصہ نہیں ہوگا، البتہ اگر دادی اپنی خوشی سے دے دیں یا آپ لوگوں کے حق میں وصیت کرجائیں  تو یہ ان کی طرف سے تبرع واحسان ہوگا۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".

(4/378،  الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز، ط؛ رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".

(ج؛ 5/ص؛690/کتاب الھبۃ، ط ؛ سعید)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"وتصح في محوز مفرغ عن أملاك الواهب وحقوقه ومشاع لايقسم ولايبقى منتفعًا به بعد القسمة من جنس الانتفاع الذي كان قبل القسمة كالبيت  الصغير والحمام الصغير ولا تصح في مشاع يقسم ويبقى منتفعا به قبل القسمة وبعدها، هكذا في الكافي".

(4/374، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز، ط: سعید)

الفتاوى التاتارخانیة  میں ہے:

"وفي المنتقى عن أبي يوسف: لايجوز للرجل أن يهب لامرأته وأن تهب لزوجها أو لأجنبي دارًا وهما فيها ساكنان، وكذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة علي الدار".

(14/431،  فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز،  نوع منہ، ط؛ زکریا، دیوبند، دہلی)

وفیہ ایضا:

"وفي الفتاوى العتابية : ولو وهبه فارغًا وسلم مشغولًا لم يصح ولايصح قوله: أقبضها أو سلمت إليك إذا كان الواهب فيه أو أهله أو متاعه". (14/431،  فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز،  نوع منہ، ط؛ زکریا، دیوبند، دہلی)

نوٹ: (1) مذکورہ جواب اس بات پر مبنی ہے کہ آپ کی دادی نے جو جائیداد تقسیم کی وہ ان کی ذاتی مملوکہ تھی، اگر وہ جائیداد آپ کے دادا مرحوم کی ملکیت تھی اور دادا مرحوم کے ورثہ میں تقسیم کرنی تھی، جس کی تقسیم دادی نے اپنی صواب دید پر کی تو اس صورت میں احکام مختلف ہوں گے، اگر تحقیق سے یہ صورت ثابت ہو تو اس حوالے سے دوبارہ سوال کرسکتے ہیں۔

(2) آپ کے والد مرحوم نے اگر مذکورہ گھر کے علاوہ کوئی جائیداد (چاہے وہ پراپرٹی کی صورت میں ہو یا رقم وغیرہ) چھوڑی ہو اس میں آپ کی والدہ اور آپ لوگوں کا شرعی حصہ ہوگا۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107201043

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں