بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہیئرٹرانسپلانٹ کی کمائی کا حکم


سوال

آج کل دواخانوں اور ہسپتالوں میں جو hair transplant یعنی بالوں کی پیوند کاری علاج کے نام پر کی جاتی ہے اس کے بارے میں کیا حکم ہے کیونکہ اعضاء کی پیوند کاری شرعاً ممنوع ہے تو بالوں کے بارےمیں کیا حکم ہے اور جو ڈاکٹر حضرات یہ کر رہےہیں انکی کمائی کے بارے میں کیا حکم ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر  اپنے ہی جسم  سے ایک جگہ کے بال نکال کرسرپر بذریعہ آپریشن پیوند کاری کی جائےاور وہ اس طور پر کہ بال اصل بالوں کی طرح جسم کا حصہ بن جائیں،تو ایسا کرنا جائز ہے، اگر ہیئر ٹرانسپلانٹ میں  کسی دوسرے انسان کے بال سر پر لگائےجائیں تو ایساکرنا گناہِ کبیرہ ہے،کیوں کہ انسانی بالوں کو بالوں سے جوڑنے والوں  پر حدیث میں لعنت وارد ہوئی ہے،نیز اگر   بال  خنزیر یا کسی اور نجس چیز  کے ہوں، تو وہ بھی لگانا ناجائز ہے،نیزاگر مصنوعی بال کسی دوسرے انسان یا خنزیر  کے نہ ہوں تو ان کا لگوانا جائز ہوگا، بشرط یہ کہ ان مصنوعی بالوں سے دھوکہ یا خلافِ حقیقت صورت کا اظہار مقصود نہ ہو،نیز یہ عارضی ہو، سر پر مسح کرنے اور غسل کرنے سے مانع نہ ہوں۔ باقی جس صورت میں ہیئر ٹرانسپلانٹ کی اجازت ہے اس کی کمائی جائز ہوگی اور جس صورت میں ہیئر ٹرانسپلانٹ ناجائز ہےتو اس کی کمائی بھی ناجائز ہوگی،

صحیح  بخاری میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «‌لعن الله الواصلة والمستوصلة، والواشمة والمستوشمة."

( كتاب اللباس،باب الوصل فی الشعر جلد 7 ص: 165 ط: السلطانية،بالمطبعة الكبري الأميرية،ببولاق مصر)

"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی نے لعنت فرمائی اس عورت پر جو اپنے بالوں میں  کسی دوسرے کے بالوں کا جوڑ لگائے اور اس عورت پر جوکسی دوسری عورت کے بالوں میں اپنے بالوں کا جوڑ لگائے اور جسم گودنے اور گدوانے والی پر  (بھی لعنت فرمائی )۔"

فتاوی شامی میں ہے:

"ووصل الشعر بشعر الآدمي حرام سواء كان شعرها أو شعر غيرها لقوله صلى الله عليه وسلم«لعن الله الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة والواشرة والمستوشرة والنامصة والمتنمصة» النامصة التي تنتف الشعر من الوجه والمتنمصة التي يفعل بها ذلك

(قوله سواء كان شعرها أو شعر غيرها) لما فيه من التزوير كما يظهر مما يأتي وفي شعر غيرها انتفاع بجزء الآدمي أيضا: لكن في التتارخانية، وإذا وصلت المرأة شعر غيرها بشعرها فهو مكروه، وإنما الرخصة في غير شعر بني آدم تتخذه المرأة لتزيد في قرونها، وهو مروي عن أبي يوسف، وفي الخانية ولا بأس للمرأة أن تجعل في قرونها وذوائبها شيئا من الوبر (قوله «لعن الله الواصلة» إلخ) الواصلة: التي تصل الشعر بشعر الغير والتي يوصل شعرها بشعر آخر زورا والمستوصلة: التي يوصل لها ذلك بطلبها ۔۔۔ ومثله في نهاية ابن الأثير وزاد أنه روي عن عائشة رضي الله تعالى عنها أنها قالت: ليس الواصلة بالتي تعنون. ولا بأس أن تعرى المرأة عن الشعر، فتصل قرنا من قرونها بصوف أسود وإنما الواصلة التي تكون بغيا في شبيهتها فإذا أسنت وصلتها بالقيادة والواشرة كأنه من وشرت الخشبة بالميشار غير مهموز اه."

(کتاب الحظر والإباحة جلد 6 ص: 372،373 ط: سعید)

الفقه الاسلامي وادلته میں ہے:

"ويحرم كما تقدم‌‌ وصل الشعر بشعر آدمي آخر على الرجال والنساء الأيامى والمتزوجين، للتجمل وغيره، بلا خلاف، سواء كان شعر رجل أو امرأة، وسواء شعر المَحْرم والزوج وغيرهما بلا خلاف، لعموم الأدلة، ولأنه يحرم الانتفاع بشعر الآدمي وسائر أجزائه لكرامته، بل يدفن شعره وظفره وسائر أجزائه.فإن وصلته بشعر غير آدمي: فإن كان شعراً نجساً، وهو شعر الميتة وشعر ما لا يؤكل لحمه إذا انفصل في حياته، فهو حرام أيضاً للحديث الآتي بلعن الواصلة والمستوصلة، ولأنه حمل نجاسة في صلاتها وغيرها عمداً.وأما الشعر الطاهر من غير الآدمي........قال الكاساني من الحنفية: ويكره أي كراهة تحريم للمرأة أن تصل شعر غيرها من بني آدم بشعرها، لقوله عليه الصلاة والسلام: «لعن الله الواصلة والمستوصلة» ولأن الآدمي بجميع أجزائه مكرم، والانتفاع بالجزء المنفصل منه إهانة له، ولهذا كره بيعه. ولا بأس بذلك من شعر البهيمة وصوفها؛ لأنه انتفاع بطريق التزين بما يحتمل ذلك، ولهذا احتمل الاستعمال في سائر وجوه الانتفاع، فكذا في التزين."

(الباب السابع: الحظر والإباحة،وصل الشعر جلد 4 ص: 2680،2681 ط: دار الفکر)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507100510

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں