بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دوکان کے مالک سے بینک کو کرائے پر دی ہوئی دوکان خریدنے کا حکم


سوال

 ہم ایک دوکان خریدنا چاہتے ہیں جو کے اگلے مالک نے ایک بینک کو دی ہوئی ہے، اور ہر مہینے  اس دکان کا  نو لاکھ روپیہ کرایہ آتا ہے،اور  مالک اور بینک والوں کے درمیان دس  ماہ کا معاہدہ ہوا  ہے ،ابھی چار ماہ ہوئے ہیں، کیا اگر ہم یہ دکان  خریدتے ہیں تو یہ سود میں آئے گا کیا؟

جواب

صورت مسئولہ میں  اگر آپ مذکورہ   دوکان کو  خرید نا چاہتے ہیں تو خرید  سکتےہیں ، تاہم    مذکورہ دکان خریدنے کے بعد  بینک کو دکان کرایہ پر دینا  ناجائز ہے، کیوں کہ بینک ایک سودی ادارہ ہے، جہاں سودی لین دین ہوتاہے، جو گناہِ کبیرہ ہے، اور قرآنِ کریم میں اس معاملہ کو  اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ جنگ کے متردف قرار دیاگیاہے، ایسے سودی ادارے کو اپنی دوکان   کرایہ پردینا گناہ کے کام میں معاونت ہے جوکہ شرعاً ناجائزہے، اورجوکرایہ بینک ادا کرے گا، ظاہرہے وہ اپنی سودی آمدنی سے ادا کرے گاجو کہ جائز نہیں،لہذاکسی بھی بینک کو  اپنی دوکان کرایہ پر دینا اور کرایہ استعمال میں لانا درست نہیں ہے،لہذا اگر بینک کے ساتھ کرایہ داری کا معاہدہ ختم کر نا ممکن ہو تو ختم کر کے خر یدیں ورنہ جب مالک کا بینک کے  ساتھ کیاہو ا معاہدہ ختم ہو اس وقت خریدیں ۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

"وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى ٱلْإِثْمِ وَالْعُدْوٰنِ وَٱتَّقُوْا اللّٰهَ إِنَّ اللّٰهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ" (سورة المائدة:  2)

"ترجمہ :اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو اور اللہ سے ڈرا کرو بلاشبہ اللہ سخت سزا دینے والے ہیں۔"  (بیان القرآن)

بدائع الصنائع میں ہے :

"و أما صفة الإجارة فالإجارة عقد لازم إذا وقعت صحيحة عرية عن خيار الشرط والعيب والرؤية عند عامة العلماء، فلاتفسخ من غير عذر". و قال شريح: إنها غير لازمة وتفسخ بلا عذر؛ لأنها إباحة المنفعة فأشبهت الإعارة، ولنا أنها تمليك المنفعة بعوض فأشبهت البيع وقال - سبحانه وتعالى-: {أوفوا بالعقود} [المائدة: 1] والفسخ ليس من الإيفاء بالعقد وقال عمر: - رضي الله عنه - " البيع صفقة أو خيار " جعل البيع نوعين: نوعا لا خيار فيه، ونوعا فيه خيار، والإجارة بيع فيجب أن تكون نوعين، نوعا ليس فيه خيار الفسخ، ونوعًا فيه خيار الفسخ؛ ولأنها معاوضة عقدت مطلقة فلاينفرد أحد العاقدين فيها بالفسخ إلا عند العجز عن المضي في موجب العقد من غير تحمل ضرر كالبيع."

(کتاب الاجارۃ ، فصل فی حکم الاجارۃ ،٢٠١/٤،دار الکتب العلمیۃ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌لا ‌تصح ‌الإجارة ‌لعسب التيس) وهو نزوه على الإناث (و) لا (لأجل المعاصي مثل الغناء والنوح والملاهي) ولو أخذ بلا شرط يباح (و) لا لأجل الطاعات مثل (الأذان والحج والإمامة وتعليم القرآن والفقه) ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن والفقه والإمامة والأذان."

(كتاب الإجارة،‌‌باب الإجارة الفاسدة،٥٥/٦،ط: دار الفكر)

شرح المجلہ میں ہے:

"لوباع الآجر المأجور بدون إذن المستأجر ،كان البيع نافذا بين البائع ولمشتري وإن لم يكن نافذا  فى حق المستأجر ،حتي أنه بعد انقضاء مدة  الإجارة يلزم البيع في حق المشتري ،وليس له الإمتاع عن الإشتراء إلا يطلب المشتري تسليم المبيع من البائع قبل انقضاء مدة الإجارة."

(الفصل الثاني في تصرف العاقدين في المأجور بعد العقد، ٦٩٠/٢،ط: رشيدية)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144501100811

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں