بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حیض کی مدت میں غسل کرنے کا حکم


سوال

اگر ماہواری 10 دن تک بھی جاری رہے اور عورت نے غسل پہلے کرلیا ہو تو کیا وہ پاک شمار ہوگی؟

جواب

واضح رہےکہ  جس خاتون کے  حیض کی عادت ایام کے حساب سے مقرر ہویعنی وہ عورت معتادہ ہو تو اگر ماہواری عادت کے ایام سے آگے بڑھ جائے، لیکن 10 دن سے آگے نہ بڑھے تو اس صورت میں یہ عادت کا بڑھ جانا شمار ہوگا یعنی عادت تبدیل ہوگئی،  لہذا عورت 10 دن سے پہلے غسل کرنے سے پاک شمار نہیں ہوگی، اور اگر ماہواری عادت کے ایام سے آگے بڑھ کر 10 دن سے بھی تجاوز کرجائے تو عادت کےایام حیض( ماہواری) كے ایام شمار ہوں گے، اور باقی ایام استحاضہ کے ہوں گے، عادت کے ایام کے بعد غسل کرنے سے پاک ہوجائے گی چوں کہ بعد کے ایام استحاضہ کے ہیں،  اور استحاضہ کی حالت میں نماز ، روزہ ساقط نہیں ہوتا؛  اس لیے استحاضہ کا خون بند ہونے پر غسل فرض نہیں،  البتہ اگر عورت کی عادت مقرر نہ ہواور ماہواری جاری رہے تو 10 دن تک حیض شمار ہوگااور باقی استحاضہ شمار ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والزائد) على أكثره أو أكثر النفاس أو على العادة وجاوز أكثرهما...(استحاضة).

(قوله والزائد على أكثره) أي في حق المبتدأة، أما المعتادة فما زاد على عادتها ويجاوز العشرة في الحيض والأربعين في النفاس يكون استحاضة كما أشار إليه بقوله أو على العادة إلخ. أما إذا لم يتجاوز الأكثر فيهما، فهو انتقال للعادة فيهما، فيكون حيضا ونفاسا رحمتي."

(کتاب الطهارة،باب الحيض والنفاس، ج:1، ص:285، ط:سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"انتقال العادة يكون بمرة عند أبي يوسف وعليه الفتوى. هكذا في الكافي."

(کتاب الطهارة،الباب السادس،الفصل الرابع في أحكام الحيض والنفاس والاستحاضة، ج:1، ص:39، ط:دار الفکر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(أما) المبتدأة بالحيض، وهي التي ابتدئت بالدم، واستمر بها فالعشرة من أول الشهر حيض؛ لأن هذا دم في أيام الحيض، وأمكن جعله حيضا فيجعل حيضا، وما زاد على العشرة يكون استحاضة، لأنه لا مزيد للحيض على العشرة، وهكذا في كل شهر.

(وأما) صاحبة العادة في الحيض إذا كانت عادتها عشرة فزاد الدم عليها فالزيادة استحاضة، وإن كانت عادتها خمسة فالزيادة عليها حيض معها إلى تمام العشرة لما ذكرنا في المبتدأة بالحيض، وإن جاوز العشرة فعادتها حيض، وما زاد عليها استحاضة."

(کتاب الطهارة،فصل الحيض وأحكامه، ج:1، ص:41، ط:دار الکتب العلمیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506100826

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں