بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حالت حیض میں ریاض الجنۃ میں جانا


سوال

کیا کوئی عورت حالت حیض میں ریاض الجنۃ میں جا سکتی ہے ؟ اگر وہ یہ دلیل پکڑے کہ ایک گناہ ہوا بعد میں توبہ کرلیں گے تو اس کو کس طرح سمجھائیں؟

جواب

ریاض الجنۃ چونکہ مسجد نبوی میں شامل ہے ،اور عورت کے لیے حیض کی حالت میں مسجد میں داخل ہونا شرعاً جائز نہیں، اس لیے حیض کی حالت میں عورت کے لیے ریاض الجنۃ میں داخل ہونا جائز نہیں ہے۔خود رسول اللہ ﷺسے حدیث شریف میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ آپ ﷺنے حائضہ عورت کو مسجد میں داخل ہونےسے منع فرمایا ہے۔اس لیے مذکورہ عورت کو رسول اللہ ﷺکے احکامات کی تعمیل کرنی چاہیے، اور حیض کی حالت میں مسجد نبوی میں داخل ہوکر گناہ کمانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔توبہ کرلینے کی امید پر گناہ کرنا شیطانی دھوکہ ہے ،اس طرح کے شیطانی خیالات کی تعمیل نہیں کرنی چاہیے۔

سنن أبي داودمیں ہے:

"...حدثتني جسرة بنت دجاجة، قالت:سمعت عائشة تقول جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم و وجوه بيوت أصحابه شارعة في المسجد، فقال: "وجهوا هذه البيوت عن المسجد" ثم دخل النبي صلى الله عليه وسلم ولم يصنع القوم شيئا رجاء أن تنزل فيهم رخصة، فخرج إليهم، فقال: "وجهوا هذه البيوت عن المسجد، فإني لا أحل المسجد لحائض ولا جنب."

( كتاب الطهارة، باب الجنب يدخل المسجد،ج:1ص:166، ط: دار الرسالة العالمية)

ترجمہ: ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور حال یہ تھا کہ بعض صحابہ کے گھروں کے دروازے مسجد سے لگتے ہوئے کھل رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان گھروں کے رخ مسجد کی طرف سے پھیر کر دوسری جانب کر لو"، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور لوگوں نے ابھی کوئی تبدیلی نہیں کی تھی، اس امید پر کہ شاید ان کے متعلق کوئی رخصت نازل ہو جائے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ ان کے پاس آئے تو فرمایا: "ان گھروں کے رخ مسجد کی طرف سے پھیر لو، کیونکہ میں حائضہ اور جنبی کے لیے مسجد کو حلال نہیں سمجھتا"۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"(ومنها) أنه يحرم عليهما وعلى الجنب الدخول في المسجد سواء كان للجلوس أو للعبور، هكذا في منية المصلي. وفي التهذيب: لاتدخل الحائض مسجدًا لجماعة. وفي الحجة: إلا إذا كان في المسجد ماء ولاتجد في غيره، وكذا الحكم إذا خاف الجنب أو الحائض سبعًا أو لصًّا أو بردًا فلا بأس بالمقام فيه، والأولى أن يتيمم تعظيمًا للمسجد، هكذا في التتارخانية".

(ج:1،ص:38،ط:رشیدیہ)
فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144408101327

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں