بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حیض کا غسل کرلینے کے بعد خون کے اخراج سے غسل کا حکم


سوال

حیض کے غسل کے بعد معمولی نسواری رنگ کے اخراج سے غسل دوبارہ واجب ہو گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جس عورت کے بارے میں پوچھا جارہا ہے، اگرسوال مین  اس عورت کی ماہواری کے دنوں کی عادت بیان کردی جاتی، تو حتمی جواب دینے میں آسانی ہوتی، تاہم یہاں اصول طور پر جواب دیا جارہا ہے۔

اگرعورت نے غسل حیض کی  اکثر مدت حیض(دس دن) کے بعد کیاہو،  غسل کرلینے کے بعد پھر خون نظر آئے، تو اس خون کی وجہ سے حیض کا غسل باطل نہیں ہوگا، بلکہ عورت خون دھونے کے بعد وضو کرکے اپنی تمام تر عبادات کرسکتی ہے، اور یہ خون استحاضہ کہلائے گا، اور شرعاً ایک ماہواری سے دوسری ماہواری کے درمیان کم از کم پندرہ دن پاکی  کا فاصلہ ہونا ضروری ہے۔

البتہ اگر  حیض کا خون اکثر مدتِ حیض(دس دن ) سے پہلے پہلے بند ہوا ہو، اور غسل کرلینے کے بعد مزید خون اکثر مدتِ حیض کے اندر آجائے، تو اس صورت میں اس خون کی وجہ سے کیا گیا غسل باطل ہوجائےگا،  اور مختلف رنگوں کا خون ٓنا بند ہونے کے بعد  دوبارہ غسل کرنا پڑے گا، اور دس دن کے اندر  ، اندر کا خون  حیض میں سے شمار ہوگا، اور اس خون کی بناء پر عورت کی عادت کی تبدیلی کا حکم لگایا جائے گا، تاہم اگر حیض کا خون اکثر مدتِ حیض سے پہلے پہلے بند ہوجائے، لیکن دوبارہ آنے والا خون اکثر مدت حیض کے بعد آجائے، تو اس صورت میں مدت گزرنے کے بعد آنے والا خون استحاضہ شمار ہوگا، جس کا حکم یہ ہے کہ اس حالت میں عورت ہر نماز کے وقت کے لیے طہارت وضو کرکے اس وضو سے تمام عبادتیں کرنے کی پابند ہوگی، وقت گزرنے کے بعد دوسرے نماز کے وقت کےلیے دوبارہ وضو کرنا پڑے گا۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"الطھر المتخلل بین الدمین والدماء فی مدۃ الحیض یکون حیضاًولو خرج أحد الدمين عن مدة الحيض بأن رأت يوما دما وتسعة طهرا ويوما دما مثلا لا يكون حيضا لأن الدم الأخير لم يوجد في مدة الحيض."

(كتاب الطهارة ، الفصل الاول في الحيض ج : 1 ص : 36 ط : رشيدية)

وفیه أیضاً:

"فان لم یجاوز العشرۃ فالطھر والدم کلاھما حیض سواء کانت مبتدأۃ او معتادۃ وان جاوز العشرۃ ففی المبتدأۃ حیضھا عشرۃ ایام وفی المعتادۃ معروفتھا فی الحیض حیض والطھر طھر."

(كتاب الطهارة ، الفصل الاول في الحيض ج : 1 ص  :37 ط : رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100651

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں