شادی کے فورًا بعد یا ولیمہ سے پہلے بیوی سے جماع کرنا لازمی ہے؟ورنہ گناہ ہوگا؟
کیا حیض کے دوران کرسکتے ہیں؟اگر کرلیا تو کيا کریں؟
شادی کے فوراً بعد یا ولیمہ سے پہلے بیوی سے جماع کرنا لازمی نہیں ہے، اگر کسی وجہ سے اس میں تاخیر کی جائے تو کوئی گناہ بھی نہیں ہے۔ البتہ ولیمۂ مسنونہ سے پہلے حقوقِ زوجیت ادا کرلینے چاہییں۔
حالتِ حیض میں جماع کرنا حرام و ناجائز ہے، اگر زوجین کی رضامندی سے اس گناہ کا راتکاب ہوا ہے تو دونوں گناہ گار ہوئے، دونوں استغفارکریں، اور بہتر یہ ہے کہ اس کے بعد کچھ صدقہ کرے؛ تاکہ نیکی سے گناہ دھل جائے۔ استطاعت ہو تو ایک دینار (4.374 گرام سونے کا سکہ) یا آدھا دینار (یا اس کی قیمت) صدقہ کریں۔
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جوشخص بھی حائضہ عورت سے ہم بستری کرلے وہ ایک یا آدھا دینار صدقہ کرے )۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 298):
"(قوله ويندب إلخ) لما رواه أحمد وأبو داود والترمذي والنسائي عن ابن عباس مرفوعاً «في الذي يأتي امرأته وهي حائض، قال: يتصدق بدينار أو نصف دينار»، ثم قيل: إن كان الوطء في أول الحيض فبدينار أو آخره فبنصفه، وقيل: بدينار لو الدم أسود وبنصفه لو أصفر. قال في البحر: ويدل له ما رواه أبو داود والحاكم وصححه: «إذا واقع الرجل أهله وهي حائض، إن كان دماً أحمر فليتصدق بدينار، وإن كان أصفر فليتصدق بنصف دينار».
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144111201117
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن