بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نفلی روزے کے چھوڑنے پر گناہ کا حکم


سوال

 ایک عورت  کسی کام کے لیے مسلسل روزے رکھ رہی ہو، اور وہ کام ابھی تک پورا نہیں ہوا، اور درمیان میں حیض آجائے جس کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکتی تو اب اس کے روزہ نہ رکھنے کی وجہ سے کوئی گناہ ہوگا ؟

جواب

واضح رہے کہ کسی کام کے پورا ہونے کی نیت سے جو عبادات کی جاتی ہیں وہ نفلی عبادات کہلاتی ہیں، نفلی عبادات کے کرنے پر ثواب ملتا ہے اور نہ کرنے پر گناہ نہیں ہے۔

لہٰذا  صورتِ مسئولہ میں مذکورہ عورت کا کسی کام کے ہو جانے کے لیے مسلسل روزے رکھنا ایک نفلی عبادت ہے، نذر نہیں ہے؛ اس لیے روزوں کو چھوڑنے کی وجہ سے (خواہ کسی عذر کی وجہ سے یا بغیر کسی عذر کے) گناہ نہیں ہوگا۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"عن أم هانئ قالت: «لما كان يوم الفتح فتح مكة جاءت فاطمة فجلست على يسار رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وأم هانئ عن يمينه، فجاءت الوليدة بإناء فيه شراب فناولته فشرب منه، ثم ناوله أم هانئ فشربت منه، فقالت: يا رسول الله! لقد أفطرت وكنت صائمة، فقال لها: (أكنت تقضين شيئا؟) قالت: لا. قال: (فلا يضرك إن كان تطوعا» ) رواه أبو داود، والترمذي، والدارمي. وفي رواية لأحمد ; والترمذي نحوه. وفيه: «فقالت: يا رسول الله! أما إني كنت صائمة، فقال: (الصائم المتطوع أمير نفسه، إن شاء صام وإن شاء أفطر» )..... (إني كنت صائمة، فقال: الصائم) : أريد به الجنس (المتطوع) : احتراز من المفترض أداء وقضاء (أمير نفسه) : أي: حاكمها ابتداء..(إن شاء صام) : أي: نوى الصيام (وإن شاء أفطر) : أي: اختار الإفطار.."

(كتاب الصوم، باب في توابع لصوم التطوع، ج:4، ص:1432، رقم:2078، ط: دار الفكر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فركن النذر هو الصيغة الدالة عليه وهو قوله: " لله عز شأنه علي كذا، أو علي كذا، أو هذا هدي، أو صدقة، أو مالي صدقة، أو ما أملك صدقة، ونحو ذلك."

(كتاب النذر، بيان ركن النذر وشرائطه، ج:5، ص:81، ط:دار الكتب العلمية)

کشف الاسرار میں ہے:

"(وأما النفل فما يثاب المرء على فعله، ولا يعاقب على تركه) عرف النفل ببيان حكمه إذ المذكور ‌حكم ‌النفل ولهذا قال شمس الأئمة وحكم النفل شرعا أنه يثاب على فعله، ولا يعاقب على تركه. وقال القاضي الإمام نوافل العبادات هي التي يبتدئ بها العبد زيادة على الفرائض والسنن المشهورة، وحكمها أن يثاب العبد على فعلها، ولا يذم على تركها؛ لأنها جعلت زيادة له لا عليه."

(باب العزيمة والرخصة، باب العزيمة والرخصة، ج:2، ص:311، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100597

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں