بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہیلتھ انشورنس کمپنی میں کال سینٹر کی نوکری کا حکم


سوال

 میرا سوال کال سینٹر کی نوکری کے بارے میں ہے۔ یہ حلال ہے یا حرام؟ لیکن پہلے  مجھے کال سینٹر کے کام کی وضاحت کرنے کی اجازت دیں ، ہمارا کال سینٹر ریاستہائے متحدہ میں کام کرتا ہے، جو 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کے افراد کو ذیابیطس کے میٹرز کی فروخت کرتا ہے، جن سے  ذیابیطس کی تشخیص ہوتی ہے، اپنے پروٹوکول کے حصے کے طور پر ہم اپنی کالوں کے دوران متبادل شناخت اور مقامات کو اپناتے ہیں، مثال کے طور پر میرے معاملے میں، میں فلوریڈا سے آپ سے رابطہ کرنے والے کیون کی شخصیت کو فرض کرتا ہوں، ہماری بات چیت کا بنیادی مقصد ممکنہ صارفین کو ان کی Medicare ID کا اشتراک کرنے کے لیے قائل کرنا ہے، جو کہ ایک ہیلتھ انشورنس کارڈ ہے ،جو ہر مریض کے پاس ہوتا ہے، اس کو حاصل کرنے کے لیے ہم قائل کرنے والے حربے استعمال کرتے ہیں، جیسے اس بات پر زور دینا کہ ان کا موجودہ میٹر پرانا ہے، ہم جو جدید میٹر پیش کر رہے ہیں، اس کے فوائد کو اجاگر کرتے ہیں، جس سے انگلی چبھنے کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے، اور یہ صارف دوست اور کم تکلیف دہ ہے،ایک بار جب کوئی گاہک ہمیں اپنی میڈی کیئر آئی ڈی فراہم کرتا ہے، تو ہم انہیں ذیابیطس میٹر بھیجنے کے لیے آگے بڑھتے ہیں، جو انہوں نے منتخب کیا ہے، اس کے بعد متعلقہ انشورنس کمپنی لین دین کے لیے ہمارے کال سینٹر کو معاوضہ دیتی ہے۔

جواب

آپ کا  سوال کال سینٹر کی جس نوکری کے متعلق ہے اس میں شرعاً کئی خرابیاں ہیں جس کی وجہ سے یہ نوکری ناجائز ہے۔

1:اپنی شناخت اور مقامات غلط بتانا صریح جھوٹ  ہے،اور گاہک اور کمپنی کے ساتھ دھوکا  ہے۔

2: آپ جس کال سینٹر میں ملازم ہیں ،اس کا  کا م بھی شرعاً ناجائز ہے،کیونکہ انشورنس کے کام میں کسی بھی طرح تعاون کرنا اور واسطہ بننا ناجائز ہے۔

3: اس نوکری میں عام طور پر گاہک کو قائل کرنے کے لیےجھوٹ بولنا پڑتا ہے،اور چیز کے غیر حقیقی اوصاف بیان کیے جاتے ہیں ۔ 

اگر مذکورہ خرابیاں نہ ہوں،اور   کسی ایسے ادارے میں  ہو  جہاں  جائز اشیاء کا کام ہو تو  اس میں جواز کی گنجائش ہے۔

شعب الإيمان مىں ہے:

"عن أبي وائل، عن عبد الله قال قال رسول الله ع صلى الله عليه وسلم: "إن الصدق يهدي إلى البر، وإن البر يهدي إلى الجنة، وإن الرجل ليصدق حتى يكتب عند الله صديقا، وإن الكذب يهدى إلى الفجور، وإن الفجور يهدي إلى النار وإن الرجل ليكذب حتى يكتب عند الله كذابا".

(باب حرمة الكذب ،ج: 6 ،ص :438، ط : الرشد)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به و إن كان في الأصل فاسدًا؛ لكثرة التعامل و كثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."

( كتاب الإجارة، باب الاجارة الفاسدة،  مطلب في أجرة الدلال،6/63، سعيد)

فقط، واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100060

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں