بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ہیجڑوں کو خیرات دینے کا حکم


سوال

 عید کے دن ہیجڑے  عموماًپیسے مانگنے آتے ہیں ،تو  ان کو  پیسے  دینااور ان  کی مدد کرنا کیسا ہے؟اور بعض اوقات کچھ ہیجڑے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ  کام کرنا چاہتے ہیں،  لیکن انہیں کام نہیں ملتا ہے تو ان کی مدد کرنا کیسا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں   مذکورہ طبقے میں  اگر کوئی  واقعی ضرورت مند ہو تو اس کو پیسے  دینے میں کوئی حرج نہیں ہے،  مدد کرنے  والا بھی اجر و ثواب کا مستحق ہوگا، اور  اگر وہ  زکات کا مستحق ہو تو اسے زکات بھی  دی جاسکتی ہے۔  البتہ جس ہیجڑے کے بارے میں علم ہو کہ یہ پیشہ ور بھکاری ہے تو اس کی مدد نہیں کرنی چاہیے، تاہم اس میں متکبرانہ انداز اختیار نہ کیا جائے، انہیں جھڑکا نہ جائے، بلکہ نرمی کے ساتھ طریقہ سے معذرت کرلی جائے، اس کے باوجود اگر کسی نے ان کو  بھیک دے دی تو وہ گناہ گار نہ ہوگا، البتہ ایسے افراد کو جان بوجھ کر زکات یا صدقاتِ واجبہ نہیں دینا چاہیے۔

حدیث پاک میں ہے:

"حدثنا أبو كريب وواصل بن عبد الأعلى قالا: حدثنا ابن فضيل عن عمارة بن القعقاع عن أبي زرعة عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من سأل الناس أموالهم تكثراً، فإنما يسأل جمراً فليستقل أو ليستكثر".

(صحيح مسلم، كتاب الزكوة، باب كراهة المسألة للناس، ج: 3، ص: 96، ط: دار الطباعة العامرة)

حدیثِ پاک میں ہے:

"عن قبيصة بن مخارق الهلالي قال: تحملت حمالةً، فأتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أسأله فيها، فقال: أقم حتى تأتينا الصدقة فنأمر لك بها، قال: ثم قال: يا قبيصة! إن المسألة لا تحل إلا لأحد ثلاثة: رجل تحمل حمالةً فحلت له المسألة حتى يصيبها ثم يمسك، ورجل أصابته جائحة اجتاحت ماله فحلت له المسألة حتى يصيب قواماً من عيش ـ أو قال: سداداً من عيش ـ، ورجل أصابته فاقة حتى يقوم ثلاثة من ذوي الحجا من قومه لقدأصابت فلاناً فاقة فحلت له المسألة حتى يصيب قواماً من عيش ـ أو قال: سداداً من عيش ـ، فما سواهن من المسألة يا قبيصة سحتاً يأكلها صاحبها سحتاً". 

(صحيح مسلم، كتاب الزكوة،باب من تحل له المسألة، ج: 3، ص: 97، ط: دار الطباعة العامرة)

حدیث پاک میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لاتحل الصدقة لغني ولا لذي مرة سوي".

(سنن أبي داؤد، كتاب الزكاة، باب من يعطي من الصدقة وحد الغنى، ج: 2، ص: 118، ط: المكتبة العصرية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100684

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں