بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج قران کا طریقہ


سوال

میں دمام سعودی عرب کا رہائشی ہوں، میرا حج قران کا ارادہ ہے،6یا 7 ذوالحج کو ایجنٹ پورے گروپ کو لے کر مکہ حرم جائے گا، میقات پر احرام  کے بعد حرم پہنچ کر میں پہلے عمرہ ادا کروں گا اور اس کے بعد طوافِ قدوم رمل کے بغیر کروں گا، اور واپس بس میں چلا جاؤں گا،  وہاں سے ہمیں منیٰ لے جایا جائے گا،  آٹھ ذوالحجہ کی ظہر سے لے کر 9 ذوالحجہ کی فجر تک کا وقت منیٰ میں گزرے گا،  اور پھر 9 ذوالحج کو فجر پڑھ کر منیٰ سے عرفات جائیں گے ،  اور غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ کے لیے روانہ ہونا ہے،  مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشا ایک ساتھ ادا کرنی ہیں،  10 ذوالحجہ کو فجر کے بعد کھڑے ہو کر دعا مانگنی ہے،  پھر مزدلفہ سے منیٰ پہنچ کر بڑے جمرے کو سات کنکریاں مار کر دعا کیے بغیر واپس آکر قربانی کرنی ہے اور پھر حلق کروا کر عام لباس میں طوافِ زیارت رمل کے ساتھ کرنا ہے،  اور سعی بھی کرنی ہے،  11 ذوالحجہ کو ظہر کے بعد چھوٹے جمرے  کو 7 کنکریاں مار کر دعا کرنی ہے،  پھر درمیانے جمرے کو 7 کنکریاں مار کر دعا کرنی ہے،  اور پھر بڑے جمرے  کو 7 کنکریاں مار کر دعا کیے بغیر واپس آجانا ہے،  12 ذوالحجہ کو ظہر کے بعد 11 ذوالحجہ  والا عمل دوہرانا ہے ،  پھر 12 کی شام طواف وداع کرکے حج مکمل ہو جائے گا اور سعی کیے بغیر واپسی کے لیے روانہ ہو جانا ہے،  اگر اس ترتیب میں کچھ کمی ہے یا غلطی ہے تو برائے مہربانی اصلاح فرما دیں،  اور براہ کرم یہ بھی بتائیں: کیا مجھے تمام نمازیں قصر پڑھنی ہیں؟ عرفات میں ظہر اور عصر اکٹھے پڑھنی ہیں یا الگ الگ؟

جواب

آپ نے اپنے لیے حج قران کی جو ترتیب لکھی ہے ،وہ درست ہے ،البتہ مندرجہ ذیل امور کا مزید دھیاں رکھیں:

الف:میقات سے پہلے حج اور  عمرہ دونوں کا احرام باندھناہے۔

ب:عمرہ میں  طواف اورسعی کے بعد حلق نہیں کرنا۔

ج:عمرہ کے بعد احرام نہیں کھولنا،ممنوعات احرام اسی طرح برقرار رہیں گے ۔

2-چونکہ آپ مکہ مکرمہ میں مقیم نہیں ،لہذاآپ نے مکہ مکرمہ،منی،عرفات اورمزدلفہ میں اپنی نمازیں قصرپڑھنی ہیں ،مقیم امام کے پیچھےاتمام کریں گے ،عرفات ظہراورعصراس وقت اکٹھی پڑھی جائیں گی جب امیر حج کی اقتداء میں نمازپڑھی جائے ،اگر اپنے اپنے خیموں میں نمازپڑھیں گے تو ظہر کی نماز ظہر کے وقت میں  اورعصر کی نماز عصر کےوقت  میں پڑھیں گے،حج قران کامکمل طریقہ مندرجہ ذیل لنک میں ملاحظہ فرمائیں:

حج قران اور اس کی ادائیگی کا طریقہ

فتاوی شامی میں ہے: 

"أو نوى فيه لكن (بموضعين مستقلين كمكة ومنى) فلو دخل الحاج مكة أيام العشر لم تصح نيته لأنه يخرج إلى منى وعرفة فصار كنية الإقامة في غير موضعها وبعد عوده من منى تصح الخ

(قوله فلو دخل إلخ) هو ضد مسألة دخول الحاج الشام فإنه يصير مقيما حكما وإن لم ينو الإقامة وهذا مسافر حكما وإن نوى الإقامة لعدم انقضاء سفره ما دام عازما على الخروج قبل خمسة عشر يوما أفاده الرحمتي."

(کتاب الصلوۃ، باب صلوۃ المسافر، جلد 2، ص : 126، ط : سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وذكر في كتاب المناسك أن الحاج إذا دخل مكة في أيام العشر ونوى الإقامة خمسة عشر يوما أو دخل قبل أيام العشر لكن بقي إلى يوم التروية أقل من خمسة عشر يوما ونوى الإقامة لا يصح؛ لأنه لا بد له من الخروج إلى عرفات فلا تتحقق نية إقامته خمسة عشر يوما فلا يصح."

(کتاب الصلوۃ، فصل بیان ما یصیر المسافر به مقیما، جلد 1، ص : 98، ط : دار الکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولا جمع بين فرضين في وقت بعذر.........إلا لحاج بعرفة ومزدلفة."

(كتاب الصلاة، ج:1، ص:381، ط:ايج ايم سعيد)

درالمختار مع ردالمحتارمیں ہے؛

"(وشرط) لصحة ھذاالجمع الإمام الأعظم أو نائبه وإلا صلوا وحدانا (والإحرام) بالحج (فيهما) أي الصلاتين (فلا تجوز العصر للمنفرد في إحداهما) فلو صلى وحده لم يصل العصر مع الإمام (ولا) يجوز العصر (لمن صلى الظهر بجماعة) قبل إحرام الحج (ثم أحرم إلا في وقته) 

اقتصر من الشروط على الإمام والإحرام وزاد في اللباب تقديم الظهر على العصر، حتى لو تبين للإمام وقوع الظهر قبل الزوال أو بغير وضوء والعصر بعده أو بوضوء أعادهما جميعا، والزمان وهو يوم عرفة والمكان وهو عرفة وما قرب منها والجماعة فالشروط ستة."

(کتاب الحج،مطلب شروط الجمع بین الصلاتین بعرفة،ج،2،ص،504-505،ط،سعید)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144411100602

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں