زکوۃ کی رقم کا اگر حیلہ تملیک یعنی کسی ضرورت مند کو مالک بنا کر پھر وہ رقم خوشی سے واپس کردے، تو اس کے بعد وہ رقم کہاں کہاں خرچ کی جا سکتی ہے؟
کسی شدید ضرورت کے بغیر حیلہ تملیک کرنا مکروہ ہے، اور اگر شدید ضرورت ہو تو تملیک کی حقیقت اورشرائط ملحوظ رکھتے ہوئے تملیک کا حیلہ کرنے کی گنجائش ہوگی، اس کا طریقہ یہ ہے کہ زکاۃ کی رقم کسی غریب کو مالک بنا کر دے دیں،جب وہ زکوۃ پر قبضہ کرلے پھر اسے ترغیب دی جائے کہ فلاں مصرف میں ضرورت ہے، اس کے بعد اگر وہ اپنی خوشی سے دے دیتا ہے ،تو اس رقم کا استعمال جائز ہوگا،چوں کہ حیلہ تملیک صرف کسی شرعی ضرورت کے لیے کیا جا سکتا ہے ، یعنی اس حیلہ تملیک کے مال کے بغیر وہ ضرورت شرعی پورا نہیں ہو سکتی ، تو صرف ان کاموں کے لیے حیلہ تملیک کیا جا سکتا ہے، اور صرف اسی مصرف میں ہی اس مال کو لگا یا جا سکتا ہے ،جو واقعی شرعی عذر بنتا ہو۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"لا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار، والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين."
(الفتاوي الھندیة، کتاب الزکاة، الباب السابع :فی المصارف، ج:1 ص:188 ط؛ رشیدیه)
فتاوی شامی میں ہے:
"(هي) لغة الطهارة والنماء، وشرعا (تمليك) (جزء مال عينه الشارع ) وهو ربع عشر نصاب حول يخرج النافلة والفطرة (من مسلم فقير) ولو معتوها (غير هاشمي ولا مولاه مع قطع المنفعة عن المملك من كل وجه) فلا يدفع لأصله وفرعه (لله تعالى)."
(رد المحتار، كتاب الزكاة ج: 2 ص: 256 ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144409100532
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن