بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ہیجڑے سے نکاح


سوال

ایک شخص ٹیلر  ماسٹر  ہے، اس کی بیوی دو ماہ قبل انتقال کرگئی، ٹیلر ماسٹر سے کپڑے سلوانے چار  سال سے  ب آرھی تھی، اس نے ٹیلر ماسٹر سے کہا: مجھے اولاد نہ ہونے کی وجہ سے طلاق ملی ہے،  اگر تم چاہو تو مجھ  سے نکاح کر سکتے ہو، مگر اولاد نہیں ہوگی، ٹیلر ماسٹر  کے پہلی بیوی سے سات بچے ہیں، وہ  ب سے نکاح کرلیتاہے،  مگر پتا چلتاہے  کہ وہ عورت نہیں، بلکہ ہیجڑہ ہے، اس کی تصدیق لیڈی ڈاکٹر نے کر دی کہ یہ عورت نہیں، بللکہ زنانہ کھسری ہے، اب وہ شخص پریشان ہے کہ میں اس کو  رکھ  سکتاہوں کہ نہیں؟ جب کہ وہ اس کو  کہتی ہے، مجھ سے اپنی ضرورت پوری کر و، کسی بھی طرح سے اور گھر  کے سارے کام بھی کروں گی، بچے بھی سنبھالوں گی، اب  بتائیں کیا  کیا جاۓ؟  محلے کے مولوی صاحب کہتے ہیں کہ یہ نکاح قائم نہیں ہوا؟

جواب

انسانی افراد میں سے خنثیٰ وہ فرد ہے، جس میں مذکرو مؤنث دونوں کی علامات پائی جائیں، بالغ ہونے سے پہلے اگر وہ لڑ کے کی طرح پیشاب کرے تو  اس کے احکام لڑکوں والے ہوں گے اوراگر لڑکی  کی طرح پیشاب کرے تو  اس پر لڑکی کے احکام مرتب ہوں گے۔ بالغ ہونے کے بعد اگر اس کی داڑھی نکل آئے یا عورت سے ہم بستری کے قابل ہوجائے یا مردوں کی طرح اسے احتلام ہونے لگے تو وہ مرد شمار ہوگا،اور اگر اس کا سینہ نکل آئے یاحیض آنے لگے تو اس پر عورت کے احکام مرتب ہوں گے۔ اور اگر کوئی علامت بھی ظاہر نہ ہو  یا دونوں علامتیں  ہوں اور  پہچان  یا ترجیح مشکل ہو تو پھر وہ خنثیٰ مشکل ہے۔ (فتاویٰ شامی 6۔729،ط،سعید)

لہذا مذکورہ شخص  اگر عورت ہے  پھر تو نکاح درست ہے، لیکن اگر وہ خنثی مشکل ہے  یا مرد ہے  تو  نکاح ہی نہیں ہوا ، اس صورت میں اُسے اپنے پاس نہ رکھیے۔ 

الشامیة (۴/۳):

"قوله: (فخرج الذكر و الخنثى المشكل) أي أن إيراد العقد عليهما لايفيد ملك استمتاع الرجل بهما لعدم محليتهما له وكذا على الخنثى لامرأة أو لمثله ففي البحر عن الزيلعي في كتاب الخنثى لو زوجه أبوه أو مولاه امرأة أو رجلا لا يحكم بصحته حتى يتبين حاله أنه رجل أو امرأة فإذا ظهر أنه خلاف ما زوج به تبين أن العقد كان صحيحا وإلا فباطل لعدم مصادفة المحل وكذا إذا زوج خنثى من خنثى آخر لا يحكم بصحة النكاح حتى يظهر أن أحدهما ذكر والآخر أنثى اهـ."

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (7/ 327):

"فالخنثى من له آلة الرجال و النساء، و الشخص الواحد لايكون ذكرًا و أنثى حقيقةً، فإما أن يكون ذكرًا، وإما أن يكون أنثى."

[فصل في بيان ما يعرف به الخنثى أنه ذكر أو أنثى]
(فصل) :
وأما بيان ما يعرف به أنه ذكر، أو أنثى، فإنما يعرف ذلك بالعلامة، وعلامة الذكورة بعد البلوغ نبات اللحية، وإمكان الوصول إلى النساء وعلامة الأنوثة في الكبر نهود ثديين كثديي المرأة ونزول اللبن في ثدييه والحيض والحبل، وإمكان الوصول إليها من فرجها؛ لأن كل واحد مما ذكرنا يختص بالذكورة والأنوثة فكانت علامة صالحة للفصل بين الذكر والأنثى.

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (7/ 327):

"و أما العلامة في حالة الصغر فالمبال، لقوله عليه الصلاة والسلام: «الخنثى من حيث يبول» ، فإن كان يبول من مبال الذكور فهو ذكر، وإن كان يبول من مبال النساء فهو أنثى " وإن كان يبول منهما جميعا يحكم السبق؛ لأن سبق البول من أحدهما يدل على أنه هو المخرج الأصلي وأن الخروج من الآخر بطريق الانحراف عنه."

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144109202486

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں