بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہبہ میں قبضہ کا ثبوت حدیث شریف سے


سوال

مندرجہ ذیل روایت سے متعلق آگاہ کریں کہ یہ روایت درست ہے یا نہیں، اس سے ہبہ میں قبضہ ثابت ہوتا ہے یا نہیں؟روایت درجِ ذیل ہے:

"ام المومنین بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں : سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے غابہ کے مقام پر مجھے چند کھجوروں کے باغ ہبہ کیے تھے، جن سے بیس و سق کھجوریں آتی تھیں،  جب صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا ، تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : اے میری بیٹی! مجھے یہ پسند نہیں کے میرے بعد کوئی تم سے زیادہ غنی ہو اور میرے بعد تمہارے علاوہ کسی کی تنگدستی مجھ پر گراں نہیں ہے۔ میں نے تم کو کچھ باغ ہبہ کیے تھے،  اگر (اسوقت) تم نے ان پر اپنا قبضہ کرلیا ہوتا تو وہ آج تمھارے ہوتے اور ( چونکہ اسوقت تم نے ان پر قبضہ نہیں کیا ، اسلیے اب وہ تمھاری ملک نہیں ہیں ) بلکہ آج وہ وراثت کا مال ہے ، تمھارے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں ، لہذا تم لوگ اسے قرآن پاک میں بیان کردہ وراثت کے احکام کے مطابق تقسیم کرنا۔

جواب

سوال میں ذکر کردہ روایت مختلف کتبِ حدیث میں مذکور ہے، اور فقہاء نے مذکورہ روایت سے ہبہ کے لئے قبضہ کو ضروری قرار دیا ہے، روایت کی تخریج مندرجہ ذیل ہے:

موطأ مالك میں ہے:

"وحدثني مالك، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، أنها قالت: إن أبا بكر الصديق كان نحلها جاد عشرين وسقا من ماله بالغابة، فلما حضرته الوفاة قال: " والله يا بنية ما من الناس أحد أحب إلي غنى بعدي منك، ولا أعز علي فقرا بعدي منك، وإني كنت نحلتك جاد عشرين وسقا، فلو كنت جددتيه واحتزتيه كان لك. وإنما هو اليوم مال وارث، وإنما هما أخواك، وأختاك، فاقتسموه على كتاب الله، قالت عائشة، فقلت: يا أبت، والله لو كان كذا وكذا لتركته، إنما هي أسماء، فمن الأخرى؟ فقال أبو بكر: ذو بطن بنت خارجة، أراها جارية".

(کتاب الاقضیۃ، باب ما لا يجوز من النحل، رقم الحدیث:39، ج:2، ص:752، ط:داراحیاء التراث العربی)

شرح معاني الآثار میں ہے:

"فحدثنا يونس قال: أخبرنا ابن وهب أن مالكا حدثه عن ابن شهاب عن عروة عن الزبير عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أنها قالت إن أبا بكر الصديق نحلها جداد عشرين وسقا من ماله بالغابة. فلما حضرته الوفاة قال والله يا بنية ما من أحد من الناس أحب إلي غنى منك ولا أعز الناس علي فقرا من بعدي منك وإني كنت نحلتك جداد عشرين وسقا فلو كنت جددتيه وأحرزتيه كان لك وإنما هو اليوم مال وارث وإنما هما أخوك وأختاك فاقسموه على كتاب الله تعالى. فقالت عائشة: والله يا أبت لو كان كذا وكذا لتركته إنما هي أسماء فمن الأخرى قال: ذو بطن بنت خارجة أراها جارية".

(کتاب الہبۃ، باب: الرجل ينحل بعض بنيه دون بعض،رقم الحدیث:5844،  ج:4، ص:88، ط:عالم الکتب)

البناية شرح الهداية  میں ہے:

"والأحسن أن يستدل على اشتراط القبض في الهبة بما أخرجه البيهقي من حديث عبد ا ابن وهب أنا مالك ويونس وغيرهما أن ابن شهاب أخبرهم عن عروة عن عائشة - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا - " أن أبا بكر - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - نحلها جذاذ عشرين وسقا من مال الغابة، فلما حضرته الوفاة قال: والله يا بنية ما من الناس أحد أحب إلي غنى بعدي منك ولا أعز علي فقرا بعدي منك، إلا أني كنت نحلتك من مالي جذاذ عشرين وسقا، فلو كنت جذذته واحترزت به كان لك ذلك، وإنما هم أخواك وأختاك فاقتسموه على كتاب الله عز وجل.. الحديث، كذا رواه الطحاوي في شرح الآثار وقال: حدثنا يونس أخبرنا ابن وهب أن مالكا حدثه ... إلى آخره، فهذا أدل دليل على اشتراك القبض وبه استدل في " المبسوط " وأصحاب الشافعي في كتبهم.

قوله: نحلها، أي وهب لها، والجذاذ بكسر الجيم من جذذت الشيء أجذه بالضم جذا قطعته، وروي جاذ عشرين وسقا.

قال الخطابي: الجاذ بمعنى المجذوذ فاعل بمعنى مفعول والوسق ستون صاعا. والغابة بالغين المعجمة وبعد الألف باء موحدة مخففة وهو موضع مشهور بالمدينة، وفي رواية من ماله بالعالية، وهو أيضا موضع بالمدينة".

(کتاب الہبۃ، باب حکم الہبۃ، ج:10، ص:161، ط:دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100991

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں