بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک سے زائد افراد کو ہبہ کرنا


سوال

ہم چار بھائی  ہیں ،میں اپنے بھائیوں سے اپناحصہ الگ کرچکاہوں،ایک زمین ہے جوکہ ہم سب بھائیوں نے والدصاحب کوپیسے دیکر خریدلی تھی جس کا والد صاحب نے اقرار بھی کیا تھا اور بھائیوں کوبتایا بھی تھاکہ اس زمین کومیں نے تم سب کے پیسوں سے خریدا ہے،بعد میں بھائی میرے حصے سے انکار کرگئے ،پھر یہ    لوگ کراچی آئیں اور مجھے کہا کہ آپ اپنی زمین (اسی زمین میں )سے فلاں حصہ ہمیں دےدو،تومیں نے اُن سے کہا کہ اللہ کے نام پر مانگوتو دےدوں گا،مگر کچھ شرائط کےساتھ اور شرائط یہ لگائیں    کہ آپ میں سے چند بھائی ایسے ہیں جن سے مجھےتکلیف ہے اگردوبارہ مجھے تکلیف دی تومجھے اپنے زمین واپس لینے کا حق ہوگا،تینوں بھائیوں نے  قرآن بیچ میں رکھ کر  یہ    معاہدہ کیا ،اور ساتھ 5لاکھ روپیہ بطور جرمانہ مقرر کیا،کہ اگر کوئی ان شرائط پر پورانہیں اتراتوآپ کو5، لاکھ روپیہ جرمانہ بھی دےگا اور آپ اپنی زمین کوواپس بھی لےسکیں گے۔

نوٹ یہ      موہوبہ زمین تقسیم نہیں ہوئی تھی۔

1:اب سوال یہ ہے کہ بھائیوں نے  جب شرائط پورے نہیں  کیے تو کیا میں زمین واپس لے سکتاہوں ؟

2:جورقم بطورجرمانہ رکھی تھی کیا اس کامطالبہ کرسکتاہوں ؟

جواب

1:واضح رہے کہ کسی کوکوئی چیزہبہ(گفٹ) کرنے  کےلیے ضروری ہے کہ موہوب لہ(جس شخص کوہبہ کیاجارہاہو) کواس چیزپرمکمل مالکانہ حقوق اورتصرفات کےساتھ قبضہ دیاجائے،نیزاگرایک سے زائدآدمیوں کو کوئی قابل ِتقسیم چیز ہبہ کی جارہی ہے،تواسےتقسیم کرکے ہرایک کواس کاحصہ الگ الگ متعین کرکےدینابھی ضروری ہے،بصورتِ دیگر ہبہ تام نہیں ہوگا، لِہذ ا صورتِ مسئولہ میں  سائل نے اپنےحصہ کی زمین اپنے بھائیوں کودیتے وقت تقسیم کرکے ہرایک کاحصہ الگ اورمتعین کرکےنہیں دیاتھا،اس لیے یہ ہبہ درست نہیں تھا،لِہذا سائل اپنے     حصے کابدستورمالک ہے۔

2:نیزشریعتِ مطہرہ میں مالی جرمانہ لینا جائز نہیں ہے،لِہٰذاسائل مقررکردہ رقم کا مطالبہ نہیں کرسکتاہے۔

كتاب الأصل للشيباني  ميں ہے:

"الرجل يهب الدار لرجلين و دفعها إليهما و لم يقسم لكل واحد منهما نصيبه هل تجوز الهبة؟ قال: لا. قلت: و كذلك الصدقة."

(باب الهبة فيمالايجوز، ج:3، ص:372، ط:دارابن حزم)

فتاوی شامی میں  ہے:

"(و لو سلمه شائعًا لايملكه فلاينفذ تصرفه فيه) فيضمنه و ينفذ تصرف الواهب، درر. ... و له: و لو سلمه شائعًا إلخ) قال في الفتاوى الخيرية: و لاتفيد الملك في ظاهر الرواية قال الزيلعي: و لو سلمه شائعًا لايملكه حتى لاينفد تصرفه فيه فيكون مضمونًا عليه، و ينفذ فيه تصرف الواهب، ذكره الطحاوي وقاضي خان، وروي عن ابن رستم مثله، وذكر عصام أنها تفيد الملك وبه أخذ بعض المشايخ."

(ج:5،ص:692،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"مطلب في التعزير بأخذ المال

(قوله: لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه."

(ج:4،ص:61،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100607

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں