بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہیڈ ٹیچر کا آفسر کے کہنے پر کلاس نہ لینا ، اور حاصل ہونے والی تنخواہ کا حکم


سوال

پرائمری سکول کا ہیڈ ٹیچر جس کو قانون کے مطابق کلاس لینے کا حکم ہے کیا وہ کسی آفسر کے کہنے پر کلاس نہ لے یاکسی آفسر نے سکول کا خیال رکھنے کو کہا ہو، وہ سکول بھی نہ سنبھالے تو کیا اس کی تنخوا ہ حلال ہے ؟

نوٹ :پرائمری سکول ہیڈ ٹیچر کو کلاس لینادوسرے ٹیچر کی طرح ضروری ہے ۔

جواب

واضح رہے کہ ہیڈ ٹیچر  کی شرعی حیثیت  اجیر خاص کی ہے ، سرکار کی طرف سے مقررہ اوقات میں  ہیڈ ٹیچر  کو اسکول میں حاضررہنا ضروری ہے، اور اس دورانیہ میں صرف اسکول سے متعلق مفوضہ امور اور ذمہ داریوں کی انجام دہی میں مصروف رہے  تاکہ بچوں کاتعلیمی  حق صحیح طور پر ادا ہو، اس میں حق تلفی یا کوتاہی نہ ہو، اور  ذاتی مشغولیات میں وقت صرف کرنے سے اجتناب کرے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں ہیڈ ٹیچر کا افسر  کے کہنے پر کلاس نہ لینا شرعاً درست نہیں ، اس  سے بچوں کی حق تلفی ہوتی ہے ، اگر چہ مکمل وقت دینےکی وجہ سے اس کے لیے تنخواہ حلال ہے ، البتہ اگر وہ سکول کے ٹائم میں سکول کا خیال نہیں رکھتااور سکول کے وقت میں وہاں حاضر نہیں رہتا تو ایسی صورت میں اس کے لیے تنخواہ لینا شرعاً جائز نہیں ہے ،الغرض حکومت سے معاہدہ و قاعدہ کے مطابق کام کرنا ہے۔

فتح القدير    میں ہے :

"أن ‌الأجير ‌الخاص هو الذي يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة ، وإن لم يعلم كمن استؤجر شهرا للخدمة أو لرعي الغنم."

(كتاب الإجارۃ ، باب إجارۃ العبد ج: 9 ص: 140 ط: دار الفکر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ثم الأجرة تستحق بأحد معان ثلاثة إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل أو باستيفاء المعقود عليه فإذا وجد أحد هذه الأشياء الثلاثة فإنه يملكها، كذا في شرح الطحاوي."

(کتاب الإجارۃ ، الباب الثانی متی تجب الأجرۃ  ج: 4 ص: 413 ط: دارالفکر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144504100834

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں