بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فر من المجذوم كما تفر من الأسد کا واضح مطلب


سوال

"وفر من المجذوم كما تفر من الأسد" کا واضح مطلب کیا ہے، رہنمائی فرمائیں۔

جواب

مطلوبہ عبارت بخاری شریف کی روایت ہے، جوکہ درج ذیل ہیں:

  "وقال عفان حدثنا سليم بن حيان حدثنا سعيد بن ميناء قال سمعت أبا هريرة يقول :  قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ( لا عدوى ولا طيرة ولا هامة ولا صفر وفر من المجذوم كما تفر من الأسد)".

(صحيح البخارى، کتاب الطب، باب الجذام، رقم الحديث:5380 ، ج:5، ص:2158، ط:دارابن کثیر)

ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیماری کا ایک دوسرے کو لگنا، اور بدشگونی کا ہونااور ہامہ جانور، اور صفر کی کوئی حقیقت نہیں ہے، جذام(وبائی چیچک) کے مریض سے بچو جیسے تم شیر سے بچتے ہو۔

مذکورہ  حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جذام کے مرض میں مبتلا  ہونے والے سے بچنے کا حکم فرمایاہے،جبکہ  دوسری طرف شریعت نے یہ ہدایت بھی دی ہے کہ کسی وبائی مرض میں مبتلا مریض سے نفرت نہ کی جائے؛ تاکہ اسے حوصلہ ملے اور اس کے دل میں احساسِ محرومی پیدا نہ ہو،  جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنےفعل سے ثابت بھی کیاہے، جیسے کہ حدیث شریف میں مروی ہیں: 

"عن جابر بن عبد الله، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم: أخذ بيد رجل مجذوم فأدخلها معه في القصعة، ثم قال: «كل، ثقة بالله وتوكلا على الله»".

(سنن ابن ماجه، کتاب الطب، باب الجزام، رقم الحديث:3542، ج:2، ص:1172، ط:داراحیاء الکتب العربیۃ)

ترجمہ: حضرتِ جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جذام کے مریض کو اپنے ساتھ بٹھا کر ایک برتن میں کھانا کھلایااور فرمایا کہ کھالیجیے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے۔

مذکورہ دونوں روایتوں  سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو متعدی وبا سے بچنے کے لیے جائز حفاظتی تدابیر اختیار کرنا چاہیے اور جائز حفاظتی تدابیر کا اختیار کرنا توکل اور تقدیر پر ایمان کے منافی نہیں ہے، بلکہ توکّل کی حقیقت یہی ہے کہ اسباب کو اختیار کیا جائے، لیکن اَسباب کو موثِّر بِالذّات ماننے کے بجائے خداوندِ مسبّب الاسباب پر ایمان رکھا جائے، کیوں کہ اسباب میں تاثیر اسی نے پیدا کی ہے اور اسی کے حکم سے یہ مؤثر ہوتے ہیں، تقدیر پر ایمان کا تقاضا بھی یہی ہے، حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف احادیث میں تعلیم دی ہے کہ ان بیماریوں کو مؤثر بالذات نہ سمجھاجائے، بلکہ مؤثر بالذات اللہ تعالی کی ذات ہے، جیسے کہ حدیث شریف میں مروی ہے:

"عن أبي هريرة، حين قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا عدوى ولا صفر ولا هامة» فقال أعرابي: يا رسول الله فما بال الإبل تكون في الرمل كأنها الظباء، فيجيء البعير الأجرب فيدخل فيها فيجربها كلها؟ قال: «فمن أعدى الأول؟»".

(صحيح مسلم، باب لاعدوى ولاطيرة، رقم الحديث:101، ج:4، ص:1742، ط:داراحیاء التراث العربی)

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وبائی مرض کے بذاتہ مْتعدی ہونے کی نفی فرمائی (کہ کوئی بھی مرض ایک شخص سے دوسرے شخص کی طرف منتقل نہیں ہوتا) تو ایک اَعرابی نے سوال کیا: یارسول اللہ! اونٹ ریگستان میں ہرن کی طرح اچھل کود کر رہے ہوتے ہیں کہ کوئی خارش زَدہ اونٹ ریوڑ میں گھس جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں سارے اونٹ خارش کی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلے اونٹ کو خارش کہاں سے لگی! 

اِس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مرض کے متعدی ہونے کی نفی نہیں فرمائی، بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی طرف متوجہ فرمایا۔

شرح النووي على مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة، حين قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا عدوى ولا صفر ولا هامة» فقال أعرابي: يا رسول الله فما بال الإبل تكون في الرمل كأنها الظباء، فيجيء البعير الأجرب فيدخل فيها فيجربها كلها؟ قال: «فمن أعدى الأول؟»

قال جمهور العلماء يجب الجمع بين هذين الحديثين وهما صحيحان قالوا وطريق الجمع أن حديث لاعدوى المراد به نفي ما كانت الجاهلية تزعمه وتعتقده أن المرض والعاهة تعدى بطبعها لابفعل الله تعالى وأما حديث لايورد ممرض على مصح فأرشد فيه إلى مجانبة ما يحصل الضرر عنده في العادة بفعل الله تعالى وقدره فنفى في الحديث الأول العدوى بطبعها ولم ينف حصول الضرر عند ذلك بقدر الله تعالى وفعله وأرشد في الثاني إلى الاحتراز مما يحصل عنده الضرر بفعل الله وإرادته وقدره فهذا الذي ذكرناه من تصحيح الحديثين والجمع بينهما هو الصواب الذي عليه جمهور العلماء ويتعين المصير إليه ولايؤثر نسيان أبى هريرة لحديث لاعدوى لوجهين أحدهما أن نسيان الراوي للحديث الذي رواه لايقدح في صحته عند جماهير العلماء بل يجب العمل به والثاني أن هذا اللفظ ثابت من رواية غير أبي هريرة فقد ذكر مسلم هذا من رواية السائب بن يزيد وجابر بن عبد الله وأنس بن مالك وبن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم وحكى المازري والقاضي عياض عن بعض العلماء أن حديث لايورد ممرض على مصح منسوخ بحديث لاعدوى وهذا غلط لوجهين أحدهما أن النسخ يشترط فيه تعذر الجمع بين الحديثين ولم يتعذر بل قد جمعنا بينهما والثاني أنه يشترط فيه معرفة التاريخ وتأخر الناسخ وليس ذلك موجودا هنا وقال آخرون حديث لاعدوى على ظاهره وأما النهي عن إيراد الممرض على المصح فليس للعدوى بل للتأذي بالرائحة الكريهة وقبح صورته وصورة المجذوم والصواب ماسبق والله أعلم قوله صلى الله عليه وسلم".

(کتاب السلام، باب لاعدوى ولاطيرة، ج:14، ص:214، ط:دارإحياءالتراث العربى)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101612

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں