بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حد میں کٹے ہوئے اعضاء کو کسی سرجری کے ذریعے دوبارہ لگوانے کاحکم


سوال

حد میں کٹے ہوئے اعضاء کو کسی سرجری کے ذریعے دوبارہ لگوا سکتے ہیں یا نہیں؟ 

جواب

 حد میں کٹے ہوئے اعضاءکوسرجری یاکسی بھی ذریعے سے  دوبارہ لگوا نااور  جُڑوانا درست نہیں ،انسان کےاپنے ہی اعضاء  کے درمیان پیوند کاری ضرورت کی وجہ سے جائزہے،یہاں ضرورت ہی نہیں،  بلکہ پیوندکاری کا نہ ہونا ضروری ہے،کیوں کہ حدکا منشاء یہ ہے کہ وہ لوگوں کے لیے  عبرت بنے ،اب اگرمثلا چورنے چوری کی ،اوراس وجہ سےاس کاہاتھ کاٹ دیاگیااورپھر اس نےسرجری کرکے اپنا ہاتھ لگوا لیا تو یہ  عبرت کہاں حاصل ہوگی ؟یہ  ایک کھیل بن جائے گا، ابھی چور کاہاتھ کاٹاگیا اور ابھی اس نے لگوالیایوں یہ شرعی حدود اور سزاکا نظام ایک کھلواڑ بن جائےگا،نیز حدیث میں آتاہے کہ چور کا ہاتھ کاٹ دیاگیا ،پھر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق  وہ ہاٹھ اس کی گردن میں لٹکا دیاگیا،اس سے معلوم ہوا کہ یہ بھی عبرت کاایک طریقہ ہےجو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیارفرماہے ،سرجری کرکےعضودوبارہ لگانااس کے خلاف ہے،اگریہ کٹاہوئی عضوکسی دوسرے انسان کے جسم میں لگایاجائے گا تویہ بھی ناجائزہے،کیوں کہ انسانی اعضاء کی پیوندکاری کسی دوسرے انسان کے لیے جائزنہیں۔

هداية الرواة میں ہے:

"وروي عن أبي هريرة مطولافي قطع السارق عن النبي صلى الله عليه وسلم: " اقطعوه ثم احسموه ". 

" وعن فضالة بن عبيد - رضي الله عنه - قال: أتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بسارق فقطعت يده ثم أمر بها ‌فعلقت ‌في ‌عنقه."

(کتاب الحدود،باب السرقة،من الحسان،ج:3،ص:432،رقم :3535/ 3536،ط:دار ابن القیم)

الموسوعة الفقهيه میں ہے:

"وفي حد السرقة قال الفقهاء: يندب أن يعلق العضو المقطوع في عنق المحدود؛ لأن في ذلك ردعا للناس، وقد روى فضالة بن عبيد رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم أتي بسارق قطعت يده، ثم أمر بها فعلقت في عنقه وفعل ذلك علي رضي الله عنهوذكر في الدر المختار حديث: ما بال العامل نبعثه، فيأتي فيقول: هذا لك وهذا لي. فهلا جلس في بيت أبيه وأمه فينظر أيهدى له أم لا؟ والذي نفسي بيده لا يأتي بشيء إلا جاء به يوم القيامة يحمله على رقبته، إن كان بعيرا له رغاء، أو بقرة لها خوار، أو شاة تيعرقال ابن عابدين: ويؤخذ من هذا الحديث - كما قال ابن المنير - أن الحكام أخذوا بالتجريس بالسارق ونحوه من هذا الحديثكذلك قال الفقهاء في قاطع الطريق إذا صلب: يصلب ثلاثة أيام ليشتهر الحال ويتم النكال قال ابن قدامة: إنما شرع الصلب ردعا لغيره ليشتهر أمره."

(بالنسبة للحدود،ج:12،ص:44،ط:دار السلاسل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100085

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں