بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

HBL FuelSaver CreditCard ایچ بی ایل فیول سیور کریڈٹ کارڈ کاحکم


سوال

HBL FuelSaver CreditCard HBL فیول سیور کریڈٹ کارڈ کا استعمال حلال یا حرام ہے ؟

جواب

(HBL FuelSaver CreditCard) ایچ بی ایل فیول سیور کریڈٹ کارڈبنوانا اور اس کا استعمال درست نہیں ہے،اس کی دو وجہیں ہیں:

1-کسی معاملہ کے حلال و حرام ہونے کی بنیاد درحقیقت وہ معاہدہ ہوتا ہے جو فریقین کے درمیان طے پاتا ہے، کریڈٹ کارڈ لینے والا کریڈٹ کارڈ جاری کرنے والے اداروں کے ساتھ یہ معاہدہ کرتا ہے کہ اگر مقررہ مدت میں لی جانے والی رقم واپس نہ کر سکا تو ایک متعین شرح کے ساتھ جرمانہ کے نام پر سود ادا کروں گا۔ شریعت میں  جس طرح سود لینا حرام ہے، اسی طرح اس کا معاہدہ کرنا بھی شرعاً حرام ہے۔ اس بنیاد پر بالفرض اگر کریڈٹ کارڈ لینے والا شخص لی گئی رقم مقررہ مدت میں واپس بھی کردے تو معاہدہ سودی ہونے کی وجہ سے اصولی طور پر کریڈٹ کارڈ کا بنوانا اور استعمال ناجائز ہے اور اگر مقررہ مدت کے بعد سود کے ساتھ رقم واپس کرتا ہے تو اس کے ناجائز ہونے میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے، اس لیے ادائیگی کی صورت کوئی بھی ہو اس سے قطع نظر نفسِ معاہدہ کے سودی ہونے کی وجہ سے کریڈٹ کارڈ بنوانا ہی ناجائز ہے۔

2-ایچ بی ایل کی ویب سائٹ  پر دی گئی معلومات کے مطابق اس کارڈ کے ذریعہ فیول ڈالوانے پر بینک کی طرف   سے %5  کیش بیک ملتا ہے ، یہ رعایت حاصل کرنا بھی شرعاً ناجائز ہے، کیوں کہ یہ رعایت بینک کی طرف سے کارڈ ہولڈر کو اپنے بینک اکاؤنٹ کی وجہ سے مل رہی ہے جو شرعاً قرض کے حکم میں ہے اور جو فائدہ قرض کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے وہ سود کے زمرے میں آتا ہے، جس سے اجتناب کرنا ہر مسلمان کے ذمہ لازم ہے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه: كلّ قرض جرّ نفعًا حرام، فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن.

(قوله: كلّ قرض جر نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر.

ثم رأيت في جواهر الفتاوى إذا كان مشروطًا صار قرضًا فيه منفعة وهو ربا وإلا فلا بأس به اهـ ما في المنح ملخصًا وتعقبه الحموي بأن ما كان ربًا لايظهر فيه فرق بين الديانة والقضاء على أنه لا حاجة إلى التوفيق بعد الفتوى على ما تقدم أي من أنه يباح."

(مطلب كلّ قرض جر نفعًا حرام، ج:5،ص:166،ط:ایچ ایم سعید)

الاشباہ والنظائر میں ہے:

"ماحرم فعله حرم  طلبه".

(القاعدة الرابعة عشر،ج:1،ص:348،ط:مکتبه علمیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201357

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں