بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز کے لیے جاتے ہوئے ایک بوڑھے کے احترم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے آہستہ آہستہ پیچھے چلنے کے واقعہ کی تحقیق


سوال

ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے ، جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ایک دفعہ نماز کےلیے جا رہے تھے کہ راستے میں ایک یہودی بزرگ جا رہا تھا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس کے احترام میں آہستہ چلنے لگے کہ بزرگ سے آگے نہیں بڑھے اور ادھر جماعت کھڑی ہو رہی تھی کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر حاضر ہوئے کہ یا رسول اللہ،  علی کےلیے نماز موخر کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔

اس واقعہ کی کیا حقیقت ہے؟ 

جواب

سوال میں آپ نے  جس واقعہ کے متعلق  دریافت کیا ہے، یہ واقعہ بعینہ انہیں الفاظ سے تو ہمیں کسی کتاب  میں تلاش کے باوجود نہیں مل سکا،البتہ اس سے ملتاجلتا ایک واقعہ   علامہ عبد الرحمن صفوری رحمہ اللہ (المتوفى: 894ھ) نے ’’نزهة المجالس ومنتخب النفائس‘‘ میں   بغیر کسی سند کےدرج ذیل الفاظ میں  ذکر کیا ہے:

"حكايةٌ: خرجَ عليُّ بنُ أبي طالبٍ لِلصّلاة، فَوجد شيخاً يمشي أمامَه، فمَشى خلفه ولم يتقدّمْ عليه إكراماً؛ لِشيبتِه واحتِراماً له، فلمّا ركع النبيُّ صلّى الله عليه وسلّم وضعَ جبريلُ ۔عليه السّلام۔ جناحَه على ظَهرِه، فكلّما أراد أن يرفعَ مَنعه جبريل حتى أدركه عليٌّ."

ترجمہ:’’حکایت:ایک بار (حضر ت )علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نماز کے لیے نکلے،(راستے میں)انہوں نے ایک بوڑھے  کوپایاجو ان کے آگےآگے چل رہاتھا،آپ رضی اللہ عنہ  اس کے پیچھےپیچھے چلنے لگے اور اس کے بڑھاپے کی  تعظیم اور اس کے احترام میں آگے نہیں بڑھے،(ادھر مسجد میں جماعت کی نماز کھڑی ہوگئی)جب نبی  کریم صلی اللہ علیہ وسلم رکو ع میں گئے تو (حضرت) جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر اپناپَر رکھ دیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع سے اٹھنے کا ارادہ فرماتے (حضرت) جبریل علیہ السلام آپ کو روک دیتے یہاں تک کہ (حضرت) علی رضی اللہ عنہ  نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں پالیا(یعنی نماز میں آکر شریک ہوگئے )‘‘۔

علامہ عبد الرحمن صفوری رحمہ اللہ مذکورہ واقعہ کو نقل کرنے کے بعد اس کاحکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

 "لَكنّه حديثٌ موضوعٌ".

ترجمہ:’’لیکن یہ حدیث  موضوع(من گھڑت) ہے‘‘۔

(نزهة المجالس ومنتخب النفائس، باب في فضل العدل، فصل في إكرام المشايخ، (2/ 58)، ط/ المطبعه الكاستلية - مصر)

اور پھر یہی واقعہ اسي مذکورہ حکم کے ساتھ امام صالح بن عبد الله المعروف بالعماد  رحمه الله(المتوفى: 991ھ) نے بھی ’’بستان الفقراء ونزهة القراء ‘‘ میں نقل کیا ہے  ۔

(بستان الفقراء ونزهة القراء، الباب الثالث والخمسون في الشفقة على خلق الله وإكرام المشايخ، فصل في إكرام المشايخ، (2/ 222)، ط/ دار الكتب العلمية - بيروت)

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ واقعہ  موضوع (من گھڑت) ہے ، لہذا اسے  بیان کرنے سے احتراز کیا جائے۔

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144311100622

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں