بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی قبر پر جانے کا حکم


سوال

کیا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے روضہ مبارک پر زیارت کی نیت سے جانا جائز ہے؟

جواب

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا روضہ مبارک عراق کے شہر کربلا میں ہے اور سر مبارک کی تدفین کے بارے میں راجح قول یہ ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک مدینہ طیبہ میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پہلو میں دفن کردیا گیا ہے۔

 عام دنوں میں کسی صحابی، ولی اور بزرگ کے مزار پر زیارت کی نیت سےجانا جائز ہے بشرطیکہ وہاں جا کر کسی قسم کے شرکیہ افعال وبدعات کا ارتکاب نہ کیا جاتا ہو اور زیارت کوکسی خاص تاریخ کے تعین کے ساتھ نہ کیا جاتا ہواوروہاں دھوم دھام سےجاکر کھانا وغیرہ پکا کرنہیں کھایا جاتا ہو ، البتہ آج کل کے زمانہ میں عرس متعارف کے مفاسد کی وجہ سے بہتر یہ ہے کہ عرس وغیرہ کے ایام میں مزارات پر جانے سے اجتناب کیا جائے۔

"التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة"میں ہے:

"واختلف الناس في موضع الرأس المكرم؟ وأين حمل من البلاد؟ فذكر الحافظ أبو العلاء الهمداني أن يزيد حين قدم عليه رأس الحسين بعث به إلى المدينة۔۔۔ثم أمر عمرو بن سعيد بن العاص برأس الحسين عليه السلام فكفن ودفن بالبقيع عند قبر أمه فاطمة عليها الصلاة والسلام.وهذا أصح ما قيل في ذلك، ولذلك قال الزبير بن بكار الرأس حمل إلى المدينة والزبير أعلم أهل النسب وأفضل العلماء۔۔۔والإمامية تقول إن الرأس أعيد إلى الجثة بكربلاء بعد أربعين يوما من المقتل."

(‌‌باب ما جاء في بيان مقتل الحسين رضي الله عنه ولا رضي عن قاتله، ص:1122، ط:مكتبة دار المنهاج للنشر والتوزيع، الرياض)

"البحور الزاخرة في علوم الآخرة"میں ہے:

"ثم بعثوا برأس الحسين - رضي الله عنه - إلى المدينة، فدفنوه بالبقيع عند قبر أمه قال القرطبي: هذا أصح ما قيل فيه."

(‌‌‌‌الكتاب الثاني في أشراط الساعة واقترابها وما يتعلق بذلك،الباب الأول في الأمارات البعيدة التي ظهرت وانقضت، ج:2، ص:481، ط:دار العاصمة للنشر والتوزيع، الرياض)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله وبزيارة القبور) أي لا بأس بها، بل تندب كما في البحر عن المجتبى."

(كتاب الصلٰوة، باب صلٰوة الجنازة، مطلب في زيارة القبور، ج:2، ص:242، ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"وفي الحديث المتفق عليه «لا تشد الرحال إلا لثلاثة مساجد: المسجد الحرام، ومسجدي هذا والمسجد الأقصى» " والمعنى كما أفاده في الإحياء أنه لا تشد الرحال ‌لمسجد ‌من ‌المساجد إلا هذه الثلاثة لما فيها من المضاعفة، بخلاف بقية المساجد فإنها متساوية في ذلك، فلا يرد أنه قد تشد الرحال لغير ذلك كصلة رحم وتعلم علم وزيارة المشاهد كقبر النبي - صلى الله عليه وسلم - وقبر الخليل - عليه السلام - وسائر الأئمة."

(كتاب الحج، فروع في الحج، خاتمة في الحج، ج:2، ص:627، ط:سعيد)

کفایت المفتی میں ہے:

"سوال:کسی بزرگ یا ولی کے مزار پر بغرض زیارت سواری پر دھوم دھام سے جانا اور وہاں کھانا، بریانی پکاکر کھانا جائز ہےیا نہیں؟ اور حدیث لاتشدوا الرحال کا کیا مطلب ہے؟

جواب(198):زیارت قبور کے لیے دور دراز مسافت پر سفر کرکے جانا گو حرام نہیں اور حداباحت میں ہے، تاہم موجب قربت بھی نہیں، دھوم دھام سے جانا اور وہاں جاکر کھانا پکاکرکھانا جائز نہیں، اگر اس کو شرعی کام اور موجب ثواب قرار دیا جاتا ہو تو اور بھی زیادہ بُرا ہوگا۔"

"سوال: سفرکرناواسطے کسی بزرگ کے مزار کی زیارت کے خصوصاً مردوں کو جائز ہے یا نہیں؟

جواب(199):سفر زیارت اگر چہ جائز ہے مگر بہتر نہیں۔"

(کتاب الجنائز، چھٹا باب:زیارت قبور اور عرس وغیرہ، ج:4، ص:191، ط:دارالاشاعت کراچی)

وفیہ ایضاً:

"(جواب:69)۔۔۔۔۔۔(3)زیارت قبور حصول عبرت اور موت یاد آنے اور اموات کے لیے دعا کرنے کی غرض سے جائز ہے اور ایصال ثواب بھی جائز ہے لیکن نہ زیارت لازم اور فرض ہے نہ ایصال ثواب ضروری ہے، یہ سب مستحبات میں داخل ہے۔"

(کتاب العقائد، دوسرا باب:انبیاء علیہم السلام، کیا زیارت قبور اور ایصال ثواب کرنا ضروری ہے؟، ج:1، ص:88، ط:دارالاشاعت کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101832

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں