بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت بلال کی منقبت سے متعلق ایک روایت کی تحقیق


سوال

 قیامت کے دن حضور اقدس ﷺ اونٹنی پر سوار ہوں گے، جس کی نکیل حضرت بلال رضی اللّٰہ عنہ پکڑے ہوئے ہوں گے، یوں حضرت بلال ، حضور ﷺ کی اونٹنی کو لے کر سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے!

 اس حدیث کے من گھڑت ہونے کے دلائل چاہیے تھے،  اور کس محدث نے اسے من گھڑت  قرار دیا  ہے؟ 

جواب

مذکورہ روایت کافی تلاش  کے باوجود ان الفاظ کے ساتھ  کہیں بھی نہ مل سکی، البتہ اس سے ملتی جلتی ایک روایت  امام طبرانی رحمہ اللہ نے نقل کی ہے، وہ فرماتے ہیں:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: يحشر الأنبياء يوم القيامة علی الدواب ليوافوا من قبورهم المحشر، ويبعث صالح عليه السلام على ناقته، ويبعث ابناي الحسن والحسين على ناقتي العضباء، وأبعث على البراق خطوها عند أقصى طرفها، ويبعث بلال على ناقة من نوق الجنة، فينادي بالأذان محضا، وبالشهادة حقا حقا، حتى إذا قال: أشهد أن محمدا رسول الله، شهد له المؤمنون من الأولين والآخرين، فقبلت ممن قبلت وردت على من ردت."

ترجمہ:

"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلي اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن انبیاء چوپایوں  پر اکھٹے کئے جائیں گے ؛ تاکہ اپنی قبروں سے میدان حشر آئیں، صالح علیہ السلام اپنی اونٹنی پر اٹھائے جائیں گے، میرے بیٹے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما میری اونٹنی عضباء پر اٹھائے جائیں گے، اور میں براق پر اٹھایا جاؤں گا جس کا ایک قدم اس کی نظر کی انتہا تک ہوگا، اور بلال رضی اللہ عنہ جنت کی اونٹنیوں میں سے ایک اونٹنی پر اٹھائے جائیں گے، پس وہ (ہر قسم کے انکار وشبہے سے پاک) خالص اذان دیں گے اور شہادت کا بھی اٹل اعلان کریں گے، پھر جب "أشهد أن محمدًا رسول الله" کہیں گے تو اگلے پچھلے تمام مومن اس کی گواہی دیں گے، تو جس کے لیے شہادت قبول کی جانی تھی اس کے لیے قبول کی جائے گی، اور جس کے لیے رد کی جانی تھی تو اس کے لیے رد کی جائے گی۔"

(المعجم الصغير، باب الهاء، من اسمه هاشم، ج: 2، ص: 255، رقم: 1122، ط: المكتب الإسلامي بيروت)

اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد امام طبرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"لم يروه عن ابن جريج، إلا يحيى بن أيوب، تفرد به أبو صالح، ولا يروى عن أبي هريرة، إلا بهذا الإسناد."

"یعنی اس روایت کو ابن جریج رحمہ اللہ کے سوائے یحیي بن ٲیوب سے کسی نے روایت نہیں کیا، اس کے نقل کرنے میں ابو صالح متفرد اور اکیلے ہیں، اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سوائے اس سند کے یہ مروی نہیں۔"

(المعجم الصغير، باب الهاء، من اسمه هاشم، ج: 2، ص: 255، رقم: 1122، ط: المكتب الإسلامي بيروت)

اسی طرح علامہ سیوطی رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:

"موضوع، عبد الله بن صالح كاتب الليث منكر الحديث."

"یعني یہ روایت من گھڑت ہے،  عبد اللہ بن صالح جو کہ لیث(راوی حدیث) کے کاتب حدیث ہیں اس کا درجہ منکر الحدیث ہے۔"

(اللآليء المصنوعة عن الأخبار الموضوعة، كتاب البعث، ج: 2، ص: 371، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

اسي طرح يه احاديث دیگر اسناد سے بھی مروی ہے، لیکن وہ تمام اسناد ضعیف ہیں، چناچہ امام ذہبی رحمہ اللہ اسی طرح کی ایک روایت نقل فرمانے کے بعد لکھتے ہیں:

"هذا لعله موضوع. وقال ابن حبان: يروي عن آبائه أشياء موضوعة."

"شاید کے یہ روایت من گھڑت ہو۔ اور ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ اس حدیث میں مذکور راوی عیسي بن عبد اللہ اپنے آباء سے من گھڑت چیزیں روایت کرتا تھا۔"

(ميزان الإعتدال، حرف العين، ج: 3، ص: 316، ط: مؤسسة الرسالة العالمية)

جب کہ ایک اور سند کے بارے میں فرماتے ہیں:

"وإسناده مظلم، ما أدري من وضعه، تعلق فيه ابن الجوزي على أبي صالح كاتب الليث."

(تلخيص كتاب الموضوعات، كتاب البعث، ص: 349، رقم: 929، مكتبة الرشد الرياض)

خلاصہ یہ ہے کہ سوال میں مذکور روایت ایک فرضی واقعہ ہے، اور جواب میں ذکر کی گئی  روایت بھی کسی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101927

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں