بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت عزیر علیہ السلام کے واقعہ مشہورہ کا تذکرہ


سوال

قرآن میں شعیب علیہ اسلام کے جس واقعہ کاذکر ہے، اس کے حوالے سے پوچھنا ہے  کہ وہ سو سال تک "سوتے" رہے تھے یا ان کی "روح قبض" کر لی گئی  تھی؟

جواب

جس واقعہ کے متعلق سوال ہے،وہ حضرت شعیب علیہ السلام کے متعلق نہیں ہے، بلکہ وہ صحیح قول کے مطابق  حضرت عزیر علیہ السلام کے متعلق ہے،اور اس میں حضرت عزیر علیہ السلام سے  "روح قبض" کر لی گئی  تھی، وہ  خواب نہیں  تھا بلکہ حقیقتًا  موت طاری  ہوئی تھی۔

ارشاد ربانی ہے:

"﴿ اَوْ كَالَّذِي مَرَّعلٰی قَرْیَةٍ وَّھِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰی عُرُوْشِھَا قَالَ اَنّٰی یُحْی ھٰذِہِ اللهُ بَعْدَ مَوْتِھَا فَاَمَاتَه اللهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَ بَعَثَه قَالَ کم لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَشَرٰبِکَ لَمْ یَتَسَنَّه وَانْظُرْ اِلٰی حِمَارِکَ وَلِنَجْعَلَکَ اٰیَةً لِّلنَّاسِ وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُھَا ثُمَ نَکْسُوْھَا لَحْمًافَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗۙ-قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ﴾البقرة:٢٥٦)"

ترجمہ:یا (تم کو اس طرح کا قصہ بھی معلوم ہے) جیسے ایک شخص تھا (ف1) کہ ایک بستی پر ایسی حالت میں اس کا گزر ہؤ ا کہ اسکے مکانات اپنی چھتوں پر گر گئے تھے (ف 2) کہنے لگا کہ الله تعالیٰ اس بستی (کے مردوں) کو اس کے مرے پیچھے کس کیفیت سے زندہ کریں گے (ف 3) سو الله تعالیٰ نے اس شخص کو سو برس تک مردہ رکھا پھر اس کو زندہ کر اٹھایا ( اور پھر) پوچھا کہ تو کتنے (دنوں) اس حالت میں رہا ۔ اس شخص نے جواب دیا کہ ایک دن رہا ہونگایا ایک دن سے بھی کم ۔ الله تعالیٰ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ تو (اس حالت) میں سو برس رہا ہے تو اپنے کھانے (کی چیز) اور پینے کی (چیز کو) دیکھ لے کہ نہیں سڑی گلی اور (دوسرے) اپنے گدھے کی طرف نظر کر اور تاکہ ہم تجھ کو ایک نظیر لوگوں کے لیے بنادیں اور (اس گدھے کی) ہڈیوں کی طرف نظر کرکہ ہم ان کو کس طرح ترکیب دئیے دیتے ہیں پھر ان پر گوشت چڑھا دیتے ہیں پھر جب یہ سب کیفیت اس شخص کو واضح ہوگئی تو کہہ اٹھا کہ میں یقین رکھتا ہوں کہ بیشک الله تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتے ہیں ۔ (ف4)(از بیان القرآن)

تفسیر:

ف 1۔ روح المعانی میں بروایت حاکم حضرت علی سے اور براویت اسحق بن بشیر حضرت ابن عباس وعبداللہ سے نقل کیا ہے کہ یہ بزرگ عزیر (علیہ السلام) ہیں ۔
ف2۔ یعنی پہلے چھتیں گریں پھر ان پر دیواریں گریں مراد یہ کہ کسی حادثے سے وہ بستی بالکل ویران ہوگئی تھی اور سب آدمی مر گئے تھے۔
ف3۔ یہ تو یقین تھا کہ اللہ قیامت کے دن مردوں کو جلادیں گے مگر اس وقت کے جانے جوخیال غالب ہوا تو بوجہ امر عجیب ہونے کے ایک حیرت سی دل پر غالب ہوگئی اور چونکہ اللہ ایک کام کو کئی طرح کرسکتے ہیں اس لیے طبیعت اس کی جویاں ہوئی کہ خدا جانے جلانا کسی صورت سے ہوگا اللہ کو منظور ہوا کہ اس کا تماشا ان کو دنیا ہی میں دکھلادیں تاکہ ایک نظیر کے واقع ہوجانے لوگوں کو زیادہ ہدایت ہو ۔
ف 4۔ ان کی حیرت کا جواب اس مجموعی کیفیت سے دینا اس کی وجہ احقر کے ذوق میں یہ ہے کہ محل حیرت یعنی احیاءویوم البعث مشتمل ہے چندا اجزاء پر اول خود زندہ کرنا دوسرے مدت طویل کے بعد زندہ کرنا تیسرے خاص کیفیت سے زندہ کرنا چوتھے اس مدت تک روح کا باقی رکھنا پانچویں بعد بعث کے برزخ میں رہنے کی مدت معلوم نہ ہونا جز اول پر خود ان کے زندہ کرنے اور ان کے گدھے میں جان ڈالنے کی دلالت کی گئی اور دوسرے جزو کے اثبات کے لیے ان کو سو برس تک مردہ رکھا تیسراجزو خود گدھا ان کے سامنے زندہ کرکے دکھلا دیا جو بالاولی امکان بقاءروح پر دال ہے کیونکہ بدن طعام و شراب بوجہ اشتمال عناصر کے بہ نسبت روح کے تغیر وفساد کے زیادہ قابل ہیں اور پانچویں امر کی نظیر ان کے جواب میں یوما اور بعض یوما کہنا ہے جیسا بعینہ یہی جواب بعض اہل محشر دینگے۔ (ازبيان القرآن ) 

 بیان القرآن ، ج:1، ص:187، ط:مکتبہ رحمانیہ)(

 تفسیر عثمانی  میں ہے:
ف ١  وہ شخص حضرت عزیر (علیہ السلام) پیغمبر تھے اور تمام تورات ان کو یاد تھی، بخت نصر کافر بادشاہ تھا اس نے بیت المقدس کو ویران کیا اور بنی اسرائیل سے بہت لوگوں کو قید کر کے لے گیا ان میں حضرت عزیر (علیہ السلام) بھی تھے جب قید سے چھوٹ آئے تب حضرت عزیر نے راہ میں ایک شہر دیکھا ویران اس کی عمارت گری ہوئی دیکھ کر اپنے جی میں کہا کہ یہاں کے ساکن سب مرگئے کیونکر حق تعالیٰ ان کو جلاوے اور یہ شہر پھر آباد ہو۔ اسی جگہ ان کی روح قبض ہوئی اور ان کی سواری کا گدھا بھی مرگیا سو برس تک اسی حال میں رہے اور کسی نے نہ ان کو وہاں آکر دیکھا نہ ان کی خبر ہوئی اس مدت میں بخت نصر بھی مرگیا اور کسی بادشاہ نے اس مدت میں بیت المقدس کو آباد کیا اور اس شہر کو بھی خوب آباد کیا۔ پھر سو برس کے بعد حضرت عزیر زندہ کئے گئے ان کا کھانا اور پینا اسی طرح پاس دھرا ہوا تھا ان کا گدھا جو مرچکا تھا اور اس کی بوسیدہ ہڈیاں اپنی حالت پر دھری تھیں وہ انکے روبرو زندہ کیا گیا اور اس سو برس میں بنی اسرائیل قید سے خلاص ہو کر شہر میں آباد بھی ہوچکے تھے حضرت عزیر نے زندہ ہو کر آباد ہی دیکھا۔
ف ٢  جب حضرت عزیر مرے تھے اس وقت کچھ دن چڑھا تھا اور جب زندہ ہوئے تو ابھی شام نہ ہوئی تھی تو یہ سمجھے کہ اگر میں یہاں کل آیا تھا تو ایک دن ہوا اور اگر آج ہی آیا تھا تو دن سے بھی کم رہا۔
ف ٣  حضرت عزیر (علیہ السلام) کے سامنے وہ سب ہڈیاں موافق ترکیب بدن کے جمع کی گئیں پھر ان پر گوشت پھیلایا گیا اور چمڑا درست ہوا پھر خدا کی قدرت سے ایکبارگی اس میں جان آئی اور اٹھ کھڑا ہوا اور اپنی بولی بولا۔
ف ٤  حضرت عزیر (علیہ السلام) نے اس تمام کیفیت کو ملاحظہ کرنے کے بعد فرمایا کہ مجھ کو خوب یقین ہوا کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے یعنی میں جو جانتا تھا کہ مردہ کو جلانا خدا تعالیٰ کو آسان ہے سو اب اپنی آنکھ سے دیکھ لیا یہ مطلب نہیں کہ پہلے یقین میں کچھ کمی تھی ہاں مشاہدہ نہ ہوا تھا پھر حضرت عزیر یہاں سے اٹھ کر بیت المقدس میں پہنچے کسی نے ان کو نہ پہچانا کیونکہ یہ تو جوان رہے اور ان کے آگے کے بچے بوڑھے ہوگئے جب انہوں نے تورات حفظ سنائی تب لوگوں کو ان کا یقین آیا بخت نصر بنی اسرائیل کی تمام کتابیں جلا گیا تھا جن میں تورات بھی تھی۔

 

(تفسیر عثمانی ، ج:1، ص:219، ط:دارلاشاعت)

معارف القرآن للکاندھلوی میں ہے:

"قریہ سے بیت المقدس مراد ہے جس کو بخت نصر نے ویران اور برباد کردیا اور بنی اسرائیل کو قتل کیا اور بہت سوں کو قید کرکے لے گیا ان میں حضرت عزیر بھی تھے حضرت عزیر جب قید سے چھوٹ آئے اور اس ویران بستی پر گذر ہوا جس کے تمام آدمی مرے پڑے ہیں اور عمارت بھی سب گری ہوئی ہے اور اس وقت وہ بستی ایسی حالت میں تھی کہ وہ اپنی چھتوں پر گری ہوئی پڑی تھی یعنی اس کی چھتیں گر کر پھر ان پر دیواریں گر گئی تھیں اس ویرانی کو دیکھ کر بطور حسرت اور تعجب یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ اس بستی کو مرے پیچھے کس طرح زندہ کرے گا مقصود اس کہنے سے بستی کے دوبارہ زندہ اور آباد ہونے کی طلب اور تمنا تھی مگر

چونکہ عادۃ ایسا ہونا بعید تھا اس لیے یہ خیال گذرا کہ کیا میری یہ دعا قبول ہوگی معاذ اللہ خدا کی قدرت میں کوئی شبہ اور تردد نہ تھا بعث کا یقین کامل تھا لیکن تمنا یہ تھی کہ کاش میں بھی اس کا نمونہ دیکھ لوں پس اللہ نے اسی جگہ ان کی روح قبض کرکے ان کو سو برس تک مردہ رکھا اور اس عرصہ میں بخت نصر بھی مرگیا اور بنی اسرائیل کو اس کے ظلم وستم سے رہائی ملی اور شہر بیت المقدس از سر نوآباد ہوگیا اس کے بعد اللہ نے ان کو زندہ کیا چناچہ فرماتے ہیں اور پھر سو برس کے بعد ان کو دوبارہ زندہ کرکے اٹھایا تاکہ واضح ہوجائے کہ جو خدا سو برس کے بعد مردہ کو زندہ کرسکتا ہے وہ سو ہزار برس کے مردہ کو بھی زندہ کرسکتا ہے اس کی قدرت کے لیے کوئی خاص مدت شرط نہیں جس وقت اٹھے سورج غروب نہیں ہوا تھا اللہ نے خود یا بذریعہ فرشتہ کے ایک دن سے کم اگر یہاں کل اسی وقت آیا تھا تو ایک دن ہوا اگر آج ہی آیا تھا تو ایک دن سے بھی کم ہوا اللہ تعالیٰ نے فرمایا بلکہ تم اس حالت میں سو سال ٹھہرے ہو یعنی حقیقت میں مرچکے تھے سو سال کی موت کے بعد ہم نے تم کو اپنی قدرت سے زندہ کیا یہ طویل مدت خواب میں نہیں گذری اور تم خواب سے بیدار نہیں ہوئے بلکہ موت سے دوبارہ زندہ ہوئے ہو ."

(معارف القرآن للکاندھلوی، ج:1، ص:502، ط:مکتبۃ المعارف)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"كالذي مر على قرية وهي خاوية على عروشها اختلفوا في هذا المار من هو.....قال: هو عزير. ..وهذا القول هو المشهور....قوله على عروشها أي ساقطة سقوفها وجدرانها على عرصاتها، فوقف متفكرا فيما آل أمرها إليه بعد العمارة العظيمة، وقال أنى يحيي هذه الله بعد موتها؟ وذلك لما رأى من دثورها وشدة خرابها وبعدها عن العود إلى ما كانت عليه، قال الله تعالى: فأماته الله مائة عام ثم بعثه قال: وعمرت البلاد بعد مضي سبعين سنة من موته، وتكامل ساكنوها، وتراجع بنو إسرائيل إليها، فلما بعثه الله عز وجل بعد موته، كان أول شيء أحيا الله فيه عينيه لينظر بهما إلى صنع الله فيه: كيف يحي بدنه، فلما استقل سويا (قال) الله له، أي بواسطة الملك: كم لبثت قال لبثت يوما أو بعض يوم قال: وذلك أنه مات أول النهار، ثم بعثه الله في آخر النهار، فلما رأى الشمس باقية ظن أنها شمس ذلك اليوم، فقال أو بعض يوم، قال بل لبثت مائة عام."

( تفسير القرآن العظيم لاأبي الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي البصري ثم الدمشقي (ت ٧٧٤ هـ)، ج:١، ص:٥٢٧، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144410100375

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں