بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت ام حکیم بنت حارث کے نکاح سے متعلق اشکال وجواب


سوال

کتابوں میں آتا ہے کہ حضرت ام حکیم بنت حارث رضی اللہ تعالی عنہ، جو عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ تعالی عنہ کی بیوی تھیں،  وہ اپنے خاوند کے ساتھ  روم کی جنگ میں شریک ہوئیں۔ اسی جنگ میں ان کے خاوند اکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ شہید ہو گئے تو خالد بن سعید رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے نکاح کر لیا، اور اسی سفر میں رخصتی ہوئی۔  (فضائل اعمال 141)

سوال یہ ہے کہ کسی عورت کا اگر خاوند فوت ہو جائے تو اس کو چار مہینے عدت گزارنی ہوتی ہے، مگر کتابوں میں آتا ہے کہ اسی سفر میں ان کا نکاح ، حضرت خالد بن سعید رضی اللہ تعالی عنہ سے ہو گیا تھا۔ برائے مہربانی اس اشکال کو رفع فرما ئیں۔ 

جواب

مذکورہ واقعہ کی حقیقت یہ ہے کہ حضرت ام حکیم بنت حارث جو کہ حضرت عکرمہ بن ابی جہل کی زوجہ تھیں، وہ اپنے خاوند کے ساتھ جنگ اجنادین میں شریک ہوئیں، چناچہ اسی جنگ کے دوران ان کے شریک حیات حضرت عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ کی شہادت  کا واقعہ پیش آیا، جس  کے بعد انہوں نے چار مہینہ دس دن عدت گزاری،اور اسی دوران انہیں حضرت یزید بن ابی سفیان، اور حضرت خالد بن سعید دونوں کے طرف سے نکاح کی پیش کش ہوئی، جس پر انہوں نے عدت کی مدت گزارنے کے بعد حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ سے چار سو دینار کے عوض نکاح کرلیا۔

چوں کہ   یہ عقد نکاح اسی سفر میں منعقد کیا گیا تھا، اس لیے یہ  وہم ہوسکتا ہےکہ شاید حضرت ام حکیم رضی اللہ عنہا کا نکاح،  عدت کے دوران ہوا ہے، مذکورہ بالا تفصیل  سےیہ اشکال رفع ہوجاتا ہےکہ حضرت ام حکیم بنت حارث كا نكاح دوران عدت نہيں ہوا تھا۔ بلکہ عدت گزرنے کے بعد ہوا، جس کی وضاحت روایت میں موجود ہے، یہ بھی ملحوظ رہے کہ روم کے خلاف جہاد کا سفر چند روزہ نہیں تھا، بلکہ اس دوران کئی سالوں  پر محیط جنگیں پیش آئی ہیں۔

"الإستیعاب فی معرفة الأصحاب" میں امام  ابن عبد البر  رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"كانت أم حكيم بنت الحارث بن هشام تحت عكرمة بن أبي جهل، فقتل عنها بأجنادين، فاعتدت أربعة أشهر وعشرا، وكان يزيد بن أبى سفيان يخطبها، وكان خالد ابن سعيد يرسل إليها يعرض لها في خطبتها، فخطبت إلى خالد بن سعيد، فتزوجها على أربعمائة دينار"

(الإستيعاب في معرفة الأصحاب، كتاب كنى النساء، باب الحاء، ج :4، ص: 1932، ط: دار الجيل بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144504100794

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں